
دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ماتا پوجا میں بتوں کی پوجا ہوتی ہے، اگر کوئی مسلمان ایسی جگہ جائے جہاں بت پرستی ہوتی ہو اور وہاں سر نہ جھکائے بلکہ صرف ساتھ چل کر جائے، تو کیا اس کا بھی گناہ ہوگا؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ماتا پوجا پر یا کسی بھی ایسی جگہ پر جانا جہاں بت پرستی ہوتی ہو شرعاً ممنوع، ناجائز اور گناہ ہے، بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے مثلاً اگر انہیں اچھا جان کر گیا یا ان کا مجمع بڑھانے کی نیت سے گیا یا ان کے کفریہ افعال پر راضی ہوا تو دائرۂ اسلام سے ہی خارج ہو جائے گا، البتہ صرف تماشہ دیکھنے کی نیت سے گیا اور کوئی کفریہ کام نہ کیا تو گنہگار ہوگا مگر کافر نہیں۔مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ایسی ہر جگہ پر جانے سے بچے جہاں شرکیہ رسومات کی ادائیگی ہوتی ہو، کیونکہ وہ جگہ محل لعنت اور شیطانوں کی اجتماع گاہ ہوتی ہے ؛ نیز وہاں ایمان کی بربادی کا خطرہ ہوتا ہے۔
اللہ کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰهِ یُكْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَاُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰى یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِهٖۤ اِنَّكُمْ اِذًا مِّثْلُهُمْ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور بیشک اللہ تم پر کتاب میں یہ حکم نازل فرما چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو ان لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ کسی دوسری بات میں مشغول نہ ہو جائیں ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو جاؤ گے۔ (پارہ 5، سورۃ النساء 4، آیت 140)
امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 671ھ/1273ء) اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”فدل بهذا على وجوب اجتناب أصحاب المعاصي إذا ظهر منهم منكر، لأن من لم يجتنبهم فقد رضي فعلهم، والرضا بالكفر كفر، قال الله عز وجل: "إنكم إذا مثلهم". فكل من جلس في مجلس معصية ولم ينكر عليهم يكون معهم في الوزر سواء، وينبغي أن ينكر عليهم إذا تكلموا بالمعصية وعملوا بها، فإن لم يقدر على النكير عليهم فينبغي أن يقوم عنهم حتى لا يكون من أهل هذه الآية“
ترجمہ: پس اس سے یہ بات بتا دی گئی کہ گناہ کرنے والوں سے اجتناب واجب ہے جب ان سے برائی ظاہر ہو رہی ہو؛ کیونکہ جو ان سے اجتناب نہیں کرتا تو گویا وہ ان کے فعل پر راضی ہے، اور کفر پر راضی ہونا خود کفر ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: "بے شک تم بھی انہیں جیسے ہو جاؤ گے" پس ہر وہ شخص جو کسی گناہ کی مجلس میں بیٹھے اور ان پر انکار نہ کرے، وہ گناہ میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہوتا ہے۔ جب وہ گناہ کی بات کریں یا گناہ کا کام کریں تو اسے انہیں منع کرنا چاہیے، اور اگر اسے منع کرنے پر قدرت نہ ہو تو اسے ان کی مجلس سے اٹھ جانا چاہیے تاکہ وہ اس آیت کے مصداق نہ ٹھہرے۔ (الجامع لأحكام القرآن، جلد 5، صفحه 418، دار الكتب المصرية ، قاهرہ)
صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں: ” کفار کی ہم نشینی اور ان کی مجلسوں میں شرکت کرنا ایسے ہی اور بے دینوں اور گمراہوں کی مجلسوں کی شرکت اور ان کے ساتھ یارانہ و مصاحبت ممنوع فرمائی گئی۔ (نیز) اس سے ثابت ہوا کہ کفر کے ساتھ راضی ہونے والا بھی کافر ہے ۔“ (تفسیر خزائن العرفان، صفحہ 195، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
علامہ فرید الدین عالم بن علاء ہندی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 786ھ/1384ء) لکھتے ہیں:
”يكره للمسلم الدخول في البيعة والكنيسة وإنما يكره من حيث انه مجمع الشياطين“
ترجمہ: مسلمان کے لیے یہودیوں کے عبادت خانے اور عیسائیوں کے گرجا گھر میں داخل ہونا مکروہ ہے، اور یہ مکروہ اس طور پر ہے کہ وہ شیاطین کے جمع ہونے کی جگہیں ہیں۔(الفتاوی التاتارخانیة، کتاب الكراهية، الفصل السادس عشر، جلد 18، صفحه 166، مطبوعه کوئٹہ)
علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 970ھ/ 1562ء) لکھتے ہیں:
”والظاهر أنها تحريمية؛ لأنها المرادة عند إطلاقهم“
ترجمہ: اور ظاہر یہی ہے کہ یہ کراہت تحریمی ہے، کیونکہ فقہائے کرام کے کراہت کو مطلق رکھنے سے یہی مراد ہوتی ہے۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق، كتاب الدعوى، جلد 7، صفحه 214، دار الكتاب الإسلامي)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”اس میں شریک ہونا مسلمان کو منع ہے، حدیث میں ہے :
"من كثر سواد قوم فهو منهم (جو شخص کسی قوم کی جماعتی تعداد بڑھائے تو وہ انہیں میں سے ہے۔ )"
دوسری حدیث میں ہے :
" من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله ( جو کسی مشرک کے ساتھ جمع ہوا اور اس کے ساتھ ٹھہرا تو بیشک وہ اسی مشرک کی طرح ہے۔)"
علماء فرماتے ہیں مسلمان کو چاہیے کہ مجمع کفار پر ہو کر نہ گزرے کہ ان پر لعنت اترتی ہے، اور پر ظاہر کہ ان کا میلہ صدہا کفر کے شعار اور شرک کی باتوں پر مشتمل ہوگا اور یہ ممانعت و ازالہ منکر پر قادر نہ ہوگا تو خواہی نخواہی گونگا شیطان اور کافر کا تابعدار ہو کر مجمع کفار میں رہنا اور ان کے کفریات کو دیکھنا سننا مسلمان کی ذلت ہے۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 21، صفحه 120-121، رضا فاؤنڈیشن لاهور)
آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ”اگر وہ میلہ اُن کا مذہبی ہے جس میں جمع ہو کر اعلان کفر و ادائے رسومِ شرک کریں گے تو بقصدِ تجارت بھی جانا ناجائز و مکروہِ تحریمی ہے، اور ہر مکروہِ تحریمی صغیرہ، اور ہر صغیرہ اصرار سے کبیرہ۔ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ معابدِ کفار میں جانا مسلمان کو جائز نہیں، اور اس کی علت یہی فرماتے ہیں کہ وہ مجمع شیاطین ہیں، یہ قطعاً یہاں بھی متحقق، بلکہ جب وہ مجمع بغرض عبادت غیر خدا ہے تو حقیقۃً معابدِ کفار میں داخل کہ معبد بوجہ اُن افعال کے معبد ہیں، نہ بسبب سقف ودیوار۔“(فتاوی رضویہ ، جلد 23، صفحه 523-524، رضا فاؤنڈیشن لاهور)
شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1421ھ/2000ء) لکھتے ہیں: ”غیر مسلموں کے مذہبی میلوں، جلوسوں میں شریک ہونا سخت حرام و گناہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں کفر ہے، مثلاً ان کا جتھا بڑھانے کی نیت سے کوئی شریک ہوا، یا ان کے کفری کاموں کو اچھا جانا تو کفر ہے، اور اگر صرف تماشہ دیکھنے یا لہو ولعب کی نیت سے شریک ہوا تو حرام و گناہ ہے۔“(فتاوی شارح بخاری ، جلد 2، صفحه 536، دائرۃ البرکات ، گھوسی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FAM-715
تاریخ اجراء: 23 شوال المکرم1446ھ/22اپریل 2025ء