Khana Kaba Ko Allah Ka Ghar Kyun Kehte Hain ?

کعبہ شریف کو اللہ کا گھر کہنے کی وجہ

مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر:WAT-2438

تاریخ اجراء:08شوال المکرم1446ھ/07اپریل2025ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کعبہ شریف کو اللہ  کا گھر کہا جاتا ہے  حالانکہ اللہ تعالی  جگہ  سے پاک  ہے، برائے کرم اس حوالے سے رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   کعبہ شریف اور اسی طرح مسجد کو بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر کہنے کی وجہ یہ نہیں کہ معاذ اللہ  وہ جگہیں اللہ عزوجل  کا مکان ہیں اور اللہ عزوجل وہاں پر رہتا ہے کہ اسلامی عقیدے کے مطابق  اللہ تعالیٰ جسم و جسمانیات مکان و زمان وغیرہ جمیع حوادث (تمام اشیاء جو پہلے نہیں تھیں پھر  پیدا ہوئیں) سے پاک ہے، جب زمین، آسمان، عرش، کرسی وغیرہ مکانات نہیں تھے، وہ اس وقت بھی تھااورجیسے اس وقت ان تمام مکانات سے پاک تھا، ویسے ہی ان مکانات کے بننے کے بعدبھی ان سے پاک ہے، اور ہمیشہ اسی شان کے ساتھ رہے گا، وہ  تغیروتبدیلی سے پاک ہے۔

   اور جہاں تک مسجد اور کعبہ شریف کو اللہ تعالیٰ کا گھر کہنے کا معاملہ ہے تو اس کی  وضاحت یہ ہے کہ :

   "ان کواللہ  تعالی کاگھرکہنے میں، ان کی جو اضافت اورنسبت اللہ تعالی کی طرف کی جارہی ہے، یہ تشریفی  ہے یعنی کعبہ شریف اور مسجد کے مقام و مرتبہ کوعام جگہوں سے ممتاز کرنے کے لئےان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی  طرف کی جاتی ہے۔" اور یہ بلا شبہ جائز ہے، قرآن پاک میں  خوداللہ تبارک و تعالی نے کعبہ شریف کو ”بیتی یعنی میرا گھر“ فرمایا ہے۔(سورۃ البقرۃ، پ 01، آیت 125)

   اسی طرح احادیثِ طیبہ میں تمام مساجد کو ”بیوت اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر“ فرمایاگیاہے۔ (معجم کبیر للطبرانی، رقم الحدیث 10324، ج 10، ص 161، مطبوعہ: قاهرہ)

   مزید قرآن و حدیث میں اس  طرح کی مثالیں موجود ہیں: مثلاً قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت صالح علی نَبِیِّنَا و علیہ الصَّلٰوۃ وَ السَّلام کی دعا سے ظاہر ہونے والی اونٹنی کو ”ناقۃ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی“ فرمایا ہے۔(سورۃ الشمس، پ 30،آیت 13)

   اور حضرت جبریل  علی نبیناوعلیہ الصلاۃ و السَّلام کو ”روحنا یعنی ہماری روح“فرمایاہے۔(سورہ مریم، پ 16، آیت 17)

   اوریہ سب اضافتیں تشریفی ہیں کہ  ان کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے میں  ان چیزوں کی خصوصی عظمت و شرافت کا اظہار  ہوتا ہے۔

   عقائد کی مشہور و معروف کتاب شرح عقائد نسفیہ میں ہے "(و لا یتمکن فی مکان)۔۔۔ و اذا لم یکن فی مکان لم یکن فی جھۃ لاعلو ولاسفل ولاغیرھما" ترجمہ: اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کسی مکان میں نہیں ہے اور جب وہ مکان میں نہیں تو کسی جہت میں بھی نہیں، نہ اوپر کی جہت میں، نہ نیچے کی جہت میں اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی جہت میں۔(شرح عقائد نسفیہ ، صفحہ 129، 131، مکتبۃ المدینہ)

   حضرت ابوالحسین احمد نوری علیہ الرحمۃ اپنی تصنیف لطیف "العسل المصفی" میں اللہ تبارک وتعالی کی شان وعظمت بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :"ہمیشہ تھا اور ہمیشہ رہے گا اور جیساجب تھا ویسا ہی اب ہے اور جیسا اب ہے ویساہی رہے گا، نہ وہ بدلے نہ گھٹے نہ بڑھے نہ زمانہ اس پرگزرے نہ مکان اسے گھیرے۔۔۔ اگر وہ عرش پرمتمکن ہے  توجب عرش نہ تھا، کہاں تھا؟ اگر اس میں زمان و مکان و جہت ومسافت وکیف وکم کوگذرہے توجب یہ چیزیں نہ تھیں وہ کیونکرتھا، جیسا جب ان سب امورسے پاک تھااب بھی پاک ہے۔" (العسل المصفی فی عقائدارباب سنۃ المصطفی، ص 3 ،4، مطبوعہ: میرٹھ)

   بہارِشریعت  میں ہے "اللہ تعالیٰ جہت و مکان و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔" (بہار شریعت، جلد01 ، حصہ 01، صفحہ19 ، مکتبۃ المدینہ)

   اضافتِ تشریفی سے متعلق علامہ بدرالدین عینی حنفی علیہ الرَّحمۃایک حدیثِ پاک میں مذکور الفاظ (فی ظلہ) کی وضاحت میں فرماتے ہیں: "قلت: اضافۃ الظل الیہ اضافۃ تشریف لیحصل امتیاز ھذا عن غیرہ کما یقال للکعبۃ بیت اللہ مع ان المساجد کلھا ملکہ و اما الظل الحقیقی فاللہ تعالی منزہ عنہ لانہ من خواص الاجسام" ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ سایہ کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف اضافت ، شرف دینے کے لئے ہے تا کہ اسے دیگر سے امتیازی خصوصیت حاصل ہوجائے جیسا کہ کعبہ کو اللہ کا گھر کہا جاتا ہے، حالانکہ تمام مسجدیں اسی کی ملکیت ہیں۔ رہا، سایہ تو حقیقی معنیٰ کے اعتبار سے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس سے پاک و منزہ ہے کیونکہ یہ  اجسام کی خصوصیات میں  سے ہے۔(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، ج 5، صفحہ177 ، داراحیاء التراث العربی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم