
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
امام صاحب یوں دعا کرتے ہیں کہ "یا اللہ عز و جل! ہمارے انتقال کے بعد ہمیں بھول نہ جانا" تو شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس طرح اللہ تعالی کی طرف لفظ "بھول" کی نسبت کے ساتھ دعا کرنا جائز ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
بھولنا عیب ہے اور اللہ عزوجل کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے، لہذا اللہ عز و جل کے لئے معاذ اللہ عزوجل بھولنے کا عقیدہ رکھنا، یا اُس کی طرف بھول جانے کی نسبت کرنا صریح کفر ہے۔ البتہ! اردو میں بھولنے کا لفظ، مہلت دینے، خصوصی یاد نہ کرنے اور شفقت و مہربانی نہ کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، اور دعا میں کچھ لوگ جو ایسے الفاظ کہہ دیتے ہیں تو وہ اسی دوسرےمعنیٰ میں کہتے ہیں ’’یعنی اپنی رحمت، مغفرت اور فضل و کرم سے محروم نہ کرنا‘‘۔ اور ایک مسلمان سے حسن ظن یہی رکھا جائے کہ اس نے اِس لفظ کو اچھے معانی میں ہی استعمال کیا ہوگا، لہذا مذکورہ الفاظ سے دعا کروانے والے شخص پر کوئی حکم کفرتو نہیں، لیکن جب بھولنے کا حقیقی معنی کفریہ ہے، تو اللہ عزوجل کےلئے اس کا استعمال، صحیح معنیٰ ذہن میں رکھتے ہوئے بھی درست نہیں ہوگا کہ غلط معنی کااحتمال ممانعت کے لیے کافی ہے، لہذا جس نے ان الفاظ سے دعا کی، اس پر توبہ اور آئندہ اس سے بچنا لازم ہے۔
اللہ عزو جل بھولنے سے پاک ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے
(قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ كِتٰبٍۚ- لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَى)
ترجمہ کنز العرفان: موسیٰ نے فرمایا: ان کا علم میرے رب کے پاس ایک کتاب میں ہے، میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔ (القرآن، پارہ 16، سورۃ طہ، آیۃ: 52)
مزید ایک دوسرے مقام پر رب تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّا)
ترجمہ کنز الایمان: اور حضور کا رب بھولنے والا نہیں۔ (القرآن، پارہ 16، سورۃ مریم، آیۃ: 64)
مذکورہ آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے ”اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ کچھ بھول جائے۔ اِس سے ان لوگوں کو اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے جو مذاق میں کسی بوڑھے کے بارے میں یا کسی چیز کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو اسے بھول ہی گیا ہے۔ یہ کہنا صریح کفر ہے اور ایسا کہنے والا کافر ہے۔“ (تفسیر صراط الجنان، جلد 6، صفحہ 136، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
عربی میں نسیان( یعنی بھولنا) ’’چھوڑدینے‘‘ کے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے، چنانچہ مؤطا امام مالک کی شرح المسالک میں ہے
و معلوم أن النسيان في لغة العرب بمعنى الترك، قال الله تعالى:(فلما نسوا ما ذكروا به) الآية، معناه: تركوا.و قيل: نسوا الله، أي تركوا طاعة الله فترك رحمتهم و هدايتهم
ترجمہ: اور یہ بات معلوم ہے کہ عربی زبان میں نسیان (بھولنے) کا مطلب "چھوڑ دینا" بھی ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہےکہ "پھر جب انہوں نے ان نصیحتوں کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں" یعنی اسے چھوڑ دیا۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، یعنی اللہ کی اطاعت کو چھوڑ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان پراپنی رحمت اور ہدایت کو چھوڑ دیا۔ (المسالک فی شرح مؤطا مالك، جلد 3، صفحہ 386، دار الغرب الاسلامی، بیروت)
کسی کو بھول جانا، اس کا ذکر نہ کرنے سے بھی کنایہ ہوتا ہے کیونکہ بھول جانا، ترکِ ذکر کو لازم ہوتا ہے، لہذا ملزوم یعنی نسیان بول کر اس کا لازم یعنی ترکِ ذکر بھی مراد لیا جاتا ہے، چنانچہ علامہ فخر الدین رازی علیہ الرحمہ تفسیر کبیر میں آیتِ قرآنی
(نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ)
کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں:
النسيان ضد الذكر، فلما تركوا ذكر الله بالعبادة و الثناء على الله، ترك الله ذكرهم بالرحمة و الإحسان، و إنما جعل النسيان كناية عن ترك الذكر لأن من نسي شيئا لم يذكره، فجعل اسم الملزوم كناية عن اللازم
ترجمہ: نسیان، ذکر کی ضد ہے پس جب انہوں نے اللہ عزوجل کے ذکر کو عبادت اور اس کی ثنا کے ذریعے ترک کردیا، تو اللہ عزوجل نے بھی اپنی رحمت اور احسان کے ساتھ ان کا ذکر چھوڑ دیا، اور نسیان کو ترکِ ذکر سے کنایہ بنایا گیا ہےکیونکہ جو کسی چیز کو بھول جائے وہ اُس کا ذکر نہیں کرتا، لہذا ملزوم کے اسم کو لازم سے کنایہ بنادیا گیا ہے۔ (تفسیر کبیر، جلد 16، صفحہ 97، دار إحياء التراث العربي، بيروت)
اللہ تعالیٰ کے لئےنسیان بمعنی بھولنے کا لفظ استعمال کرنا کفر ہے، جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے
لو قال لرجل لا يمرض هذا منسي الله تعالى، أو قال هذا مما نسيه فهذا كفر عند بعضهم، و هو الأصح
ترجمہ: اگر کسی نے ایسے شخص کے بارے میں جو بیمار نہیں ہوتا، کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بھولا ہوا ہے، یا کہا کہ یہ اُن میں سے ہے جنہیں اللہ نے بھلا دیا ہے، تو بعض علماء کے نزدیک یہ کفر ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ، جلد 2، صفحہ 259، دار الفکر، بیروت)
لیکن جہاں کسی بھی حالی یا قالی قرینے سے نسیان سے کسی کومہلت دینا،یا اس کا خاص ذکر چھوڑدینا مراد ہو،تو وہاں اس کی نسبت رب تعالی کی طرف کفر نہیں ہوگی،چنانچہ مذکورہ عبارت کے تحت ’’التعلیقات الرضویۃ علی الفتاوی الہندیۃ‘‘ میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں:
قلت: و الحق لا،فان النسیان کثیراً ما یستعمل بمعنی الامھال و قد ورد فی القرآن العزیز وھو المراد ھھنا
ترجمہ: میں کہتا ہوں کہ درست بات یہ ہے کہ یہ کفر نہیں، کیونکہ نسیان(بھولنا) بہت مرتبہ چھوڑدینے،نظرانداز کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور قرآنِ مجید میں بھی اس معنیٰ میں نسیان کا لفظ آیا ہے، اور یہاں بھی یہی معنی مراد ہے۔ (التعلیقات الرضویۃ علی الفتاوی الھندیۃ، صفحہ 243، 244، مطبوعہ: لاہور)
فتاوی شارح بخاری میں مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک سوال ہوا کہ کیا مندرجہ ذیل شعر کا پڑھناجائز ہے یا نہیں؟ پڑھنے والوں پر شرعاً کیا حکم ہے؟
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا - ہم تجھے بھولے ہوئے ہیں تم نہ ہم کو بھول جا
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا: ”اس شعر کا پڑھنا ہرگز ہرگز جائز نہیں، بھول جانے کی نسبت اللہ عزوجل کی طرف کرنا کفر ہےکہ اس کو جہل لازم ہے اور غفلت بھی، اللہ عزوجل اس سے منزہ ہےلیکن اردو میں بھول جانے کے معنی مہربانی نہ کرنا بھی آتا ہےاور مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا لازم، اس لئے اس کے کلام کو اچھے محمل پر محمول کرنا ضروری ہے اس لئے بطور حسن ظن یہی کہیں کہ شاعر کی مراد یہی ہے مگر جب اس کا معنی حقیقی کفر ہے تو اچھے معنی مراد لےکر بھی اللہ تعالی پر اس کا اطلاق درست نہیں ہوگا۔ علما فرماتے ہیں
مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع
ترجمہ: یعنی ممانعت کےلئے صرف ممنوع معنی کا وہم دینا ہی کافی ہے۔“ (فتاوی شارح بخاری، جلد 1، صفحہ 245، برکات المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4032
تاریخ اجراء: 22 محرم الحرام 1447ھ / 18 جولائی 2025ء