Sijjil Naam Rakhna Kaisa?

 

سجیل نام رکھنا کیسا ؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8983

تاریخ اجراء:  02 محرم الحرام 1446ھ /09جولائی  2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے چند دن قبل بیٹا عطا فرمایا ہے۔ گھر والوں کے مشورے سے اُس کا نام” سِجّیل “رکھا ہے، لیکن قریبی مسجدکے  امام صاحب  جو کہ عالم دین ہیں، اُنہوں نے یہ نام رکھنے سے منع کیا ہے کہ اِس کا معنی مناسب نہیں۔ آپ شریعت کا حکم بیان کریں کہ کیا یہ نام نہیں رکھنادرست نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نام رکھنے کے متعلق اصول یہ ہے کہ   ایسا  نام  رکھا جائے جومعنی کےاعتبار سے اچھا اور  مسلمانوں میں معروف ہو، کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اچھے نام رکھنے کی  ترغیب ارشاد فرمائی ہے، لہذا ”سِجِّیل “ نام نہ رکھا جائے کہ اِس  کا معنی ”کنکر“ اور ”پتھر“ ہے۔اِس اعتبار سے یہ نام مناسب نہیں، لہٰذا بہتریہ ہے کہ خدا کے نیک بندوں کے ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیجیے کہ یہ مستحب ہے۔

   نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:أول ما ينحل الرجل ولده اسمه ‌فليحسن ‌اسمه‘‘ترجمہ:والد اپنے بچے کو سب سے پہلا تحفہ بصورتِ ”نام“ دیتا ہے، اِ س لیے  والد کو بچے کا اچھا نام رکھنا چاہیے۔            (جمع الجوامع، جلد03، صفحہ 266،مطبوعہ  مصر)

   نام کے شخصیت پر اثرات مترتب ہوتے ہیں، چنانچہ علامہ عبدالرؤف مُناوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال : 1031ھ/1621ء) نے لکھا: ’’أمر الأمة بتحسين الأسماء فيه تنبيه على أن الأفعال ينبغي أن تكون مناسبة للأسماء لأنها قوالبها دالة عليها لا جرم اقتضت الحكمة الربانية أن يكون بينهما تناسب وارتباط وتأثير الأسماء في المسميات والمسميات في الأسماء ظاهر بين‘‘ترجمہ :اُمّت کو اچھانام رکھنے کا حکم دینے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ آدمی کے کام اس کے نام کے مطابق ہونے چاہئیں، کیونکہ نام انسان کی شخصیت کے لیے جسم کی طرح ہوتا اور اس کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نام اور کام میں مناسبت اور تعلق ہو ۔ نام کا اثرشخصیت پر اور شخصیت کا اثر نام پر ظاہر ہوتاہے  ۔ (فیض القدیر، جلد03، صفحہ 394، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت )

   سِجِّیل کو بطورِ نام نہ رکھا جائے کہ نام رکھنے کے لیے اِس کا معنی مناسب نہیں، چنانچہ ”تاج العروس“ میں ہے: السِّجِّيلُ، كَسِكِّيتٍ حجارة كالمدر، قال اللہ تعالى: تَرْمِیْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ، وهو معرب دخيل، أصله بالفارسية سنك وكل، أي الحجر والطين‘‘ ترجمہ:”سِجِّیل “ جیسا کہ لفظِ ”سِکِّیت“ ہے۔ اِس کا معنی پتھر ہے،  جو کہ مٹی کے ڈھیلے کے مشابہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”جو انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے تھے ۔“یہ ”دخیل“ سے مُعَرَّب ہے اور اِس کی اصل ”سَنگ وکِل“ ہے، یعنی پتھر اور مٹی۔(تاج العروس من جواھر القاموس، جلد 29، صفحہ 179، مطبوعہ کویت)

   المنجد“ میں ہے:”السِجِّیل“ کنکر۔(المنجد، صفحہ361، مطبوعہ  خزینہ علم وادب، لاھور)

   بہتر یہ ہے کہ لڑکے کا نام  ”محمد“  رکھیں اور پکارنے کے لیے کسی بھی نیک ہستی کا نام رکھ لیا جائے، کہ ”محمد“ نام رکھنے کی بہت برکتیں ہیں۔ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:من ولد له ‌مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة‘‘ ترجمہ:جس کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہو اور وہ میری محبت  اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لیے اپنے بیٹے کا نام ”محمد“ رکھے، تو وہ والد اور بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنزالعمّال، جلد16،الفصل الاول فی السماء والکنٰی،  صفحہ 422،مطبوعۃ مؤسسۃ الرسالہ)

   اِس حدیث مبارک کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے امام سیوطی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے حوالے سے نقل کیا:قال السيوطي: هذا ‌أمثل ‌حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن‘‘ ترجمہ:اِس باب میں جتنی احادیث بھی وارِد ہوئیں، اُن میں یہ روایت سب سے بہتر ہے اور اِس کی سند بھی ”حسن“ ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 22،مطلب فی الاسماء والکنٰی،  صفحہ 138 ، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   محبوبانِ خدا کے ناموں پر نام رکھنا مستحب ہے،جیساکہامامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) نےلکھا:”حدیث سے ثابت کہ محبوبانِ خدا، انبیاء واولیاء علیہم الصلٰوۃ والثناء کے اسمائے طیبہ پرنام رکھنا مستحب ہے،  جبکہ ان کے مخصوصات سے نہ ہو۔(فتاوٰی رضویہ، جلد24،صفحہ685،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   نوٹ: ناموں کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کےمکتبۃ المدینہ کی شائع  کتاب ’’نام رکھنے کے احکام‘‘ کا مطالعہ کیجیے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم