
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص نے سرکاری ملازمت 12 لاکھ روپے میں خریدی اور اس کو پتہ نہیں تھا کہ یہ نوکری اس کا حق ہے یا نہیں، کیونکہ ملک میں اس نوکری کے حق دار اور غیر حق دار معلوم نہیں۔ اب اس شخص کے لیے وہ نوکری کرنا شرعاً جائز ہوگا یا نہیں؟ جبکہ وہ اپنی ڈیوٹی صحیح طور پر کررہا ہو اور اس سے ملنے والی اجرت حلال ہوگی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
ملازمت خریدنے سے مراد اگر نوکری حاصل کرنے کے لیے رقم دینا ہے جیسا کہ یہی ظاہر ہے، تو یہ محض اپنا کام نکلوانے کے لیے رقم دینا ہے، ایسی صورت میں اس نوکری کا اہل ہو یا نہ ہو،بہرصورت وہ رقم رشوت ہوگی، اور رشوت کا لین دین شرعاً ناجائز وحرام اور باعثِ لعنت فعل ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں شخصوں پر لعنت فرمائی ہے۔ لہذا اولاً تو اس طرح رشوت دے کر نوکری حاصل کرنا، ناجائز و گناہ ہے، البتہ اگر کسی نے رشوت دے کر نوکری حاصل کرلی، تو اب اگر وہ نوکری کسی جائز کام کی ہے جس میں کوئی غیر شرعی کام نہیں کرنا پڑتا، تو وہ نوکری اس کے لیے جائز ہوگی اور اس نوکری کو وہ اپنی اہلیت کے مطابق درست انجام دیتا ہے، تو اس سے حاصل ہونے والی اجرت چونکہ ایک جائز کام کے عوض ہوگی، لہذا وہ اجرت حلال ہوگی، اس کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں، لیکن رشوت دینے کا گناہ بہرحال اس پر ہوگا جس سے ایسے شخص کو توبہ کرنا ضروری ہوگا۔
نوٹ: اگر ملازمت خریدنے سے مراد رشوت نہ ہو، بلکہ کچھ اور مقصود ہو، تو اس کی وضاحت مطلوب ہوگی جس کے بعد ہی متعین جواب دیا جاسکے گا۔
رشوت کی تعریف کرتے ہوئے،علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:
الرشوۃ بالکسر: ما یعطیہ الشخص الحاکم و غیرہ لیحکم لہ او یحملہ ما یرید
ترجمہ: رشوت (راء کے زیر کے ساتھ) یہ ہے کہ کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو کچھ دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا حاکم کو اپنی چاہت پورا کرنے پر ابھارے۔ (رد المحتار، جلد 8، کتاب القضاء، صفحہ 42، دار المعرفۃ، بیروت)
اپنا کام بنانے کے لئے جو کچھ دیاجائے وہ رشوت ہے، جیساکہ امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’رشوت لینا مطلقاً حرام ہے کسی حالت میں جائزنہیں (رشوت کی تعریف یہ ہے کہ) جو پرایا حق دبانے کے لئے دیاجائے رشوت ہے۔ یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 597، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
رشوت دینے اور لینے والے دونوں شخصوں پر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی، چنانچہ سنن ابی داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم الراشی و المرتشی
ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اوررشوت لینے والے پر لعنت فرمائی۔ (سنن ابی داؤد، باب فی کراھیۃ الرشوۃ، صفحہ 763، رقم الحدیث: 3580، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت)
جس نوکر ی میں کوئی ناجائز کام نہ کرنا پڑے، وہ نوکری شرعاً جائز ہے، چنانچہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’اگر اِن کاموں کو دیانت وامانت سے انجام دے۔۔۔ اور کوئی ناجائز کام اُسے کرنا نہ ہو، تو یہ نوکری جائز ہے‘‘۔ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 498، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
جائز کام سے حاصل ہونے والی اجرت حلال ہے، اگرچہ اس کا سبب حرام ہو، چنانچہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”بہرحال نفسِ اجرت کہ کسی فعلِ حرام کے مقابل(عوض میں) نہ ہو، حرام نہیں، یہی معنی ہیں اس قولِ حنفیہ کے کہ:
یطیب الاجر و ان کان السبب حراما کما فی الاشباہ و غیرھا
یعنی اجرت طیب ہوگی، اگرچہ سبب حرام ہے، جیسا کہ الاشباہ وغیرہ میں ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 19، صفحہ 501، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-763
تاریخ اجراء: 28 ذی القعدۃ الحرام 1446 ھ / 26 مئی 2025 ء