Kya Nabaligh Bache ko Isal e Sawab Karsakte Hain?

نابالغ بچے کو ایصال ثواب کر سکتے ہیں؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9227

تاریخ اجراء:08 رجب المرجب  1446ھ/9 0جنوری 2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے  میں  کہ نابالغ بچہ جوچند ماہ یا  چند سال کا ہو، اس کے لیے ایصال ثواب کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بنیادی طور پر یہ بات یادرکھیں کہ  جسے ایصال ثواب   کیا جائے، اُس کے نیک یا گنہگار  ہونے،نیز بالغ یا نابالغ ہونے کی کوئی تخصیص نہیں  ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ  بالغ یا گنہگار کو ایصالِ ثواب کر سکتے ہیں، نابالغ یا نیک کو ایصال ثواب  نہیں کر سکتے، بلکہ  انسان اپنے ہر عمل کا ثواب دوسرے  مسلمان کو ایصال کرسکتا ہے، البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ گنہگار کو ایصال ثواب کا مقصد مغفرت کی دعا ہے، جبکہ  نیک افراد کے لیے ایصال ثواب کا مقصددرجات کی بلندی اور مزید رحمتوں کا نزول  ہوتا ہے،  جیسا کہ اہلِ اسلام  انبیائے کرام اور بالخصوص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں  ثواب پیش کرتے ہیں اورصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہمکے زمانہ  سے اب تک یہی  معمول ہے، حالانکہ انبیائے کرام  علیہم السلام تو قطعی طور پرمعصوم ہیں، لہذا نابالغ بچہ کہ جو اگرچہ گنہگار نہیں ہے، اُسے بھی ایصال ثواب کرنا ،جائز ہےکہ نابالغ کےحق میں ایصال ثواب بلندی درجات کاسبب ہے۔

   چھوٹے بچےکو ایصال ثواب کرنے کے متعلق سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال  ہو ا کہ اگر کسی کھانےپریا شیرینی پربچے کی فاتحہ دےکرمسکینوں کو کھلادے،تب اس کھانے کی فاتحہ یا شیرینی کامیت کو ثواب ملےگایا نہیں؟اس کے جواب  میں امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :”ضرور جائز ہےاور بیشک ثواب پہنچتاہے۔اہلسنت کا یہی مذہب ہے’’والصبی لاشک انہ من اھل الثواب ونصوص الحدیث وارشادات العلماء مطلقۃ لاتخصیص فیھا‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ اہل ثواب میں سے ہے (کیونکہ) حدیث شریف کی تصریحات اور علمائے کرام کے ارشادات اس بارے میں مطلق مذکور ہیں کہ جن میں کوئی تخصیص نہیں(یعنی بالغ ونابالغ  کی کوئی قیدمذکور نہیں)،اوراللہ تعالیٰ پاک برتر اور سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ124، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن،  لاھور)

   مغفرت کی دعا کرنا، گناہ ہونے کو ہی مستلزم نہیں ہے، بلکہ کبھی یہ دعا درجات  کی بلندی کےلیے بھی ہوتی ہے،جیساکہ شہاب الدین علامہ محمود آلوسی بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1270ھ/1853ء)  لکھتے ہیں: ’’كان الدعاء بالمغفرة لا يستلزم وجوب ذنب بل قد يكون بزيادة درجات كما يشير إليه استغفاره عليه الصلاة والسلام في اليوم والليلة مائة مرة. وكذا الدعاء بها للميت الصغير في صلاة الجنازة“ ترجمہ: مغفرت کی دعا کرنا، گناہ ہونے کو ہی لازم  نہیں ہے، بلکہ کبھی یہ دعا درجات کی بلندی  کےلیے بھی ہوتی ہے، جیسا کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دن اور رات میں سو مرتبہ اِستغفار فرمانا اسی طرف اشارہ کرتا ہے، اسی طرح  نماز جنازہ میں نابالغ میت کےلیے دعا کا بھی یہی محمل ہے۔(تفسیر روح المعانی، جلد11، صفحہ262، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:”قال ابن حجر: الدعاء في حق الصغير لرفع الدرجات“علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: چھوٹے بچے کے حق میں دعا کرنا بلندی درجات کا سبب ہے۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح،جلد03،صفحہ 1208،مطبوعہ دارالفکر بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے:”یہ خیال کہ جب وہ بحکم ِحدیث ان شاء اللہ العزیز فتنہ قبرسے مامون ہے کہ اس مسلم کی موت روز جمعہ واقع ہوئی خصوصاً وہ خودہی صالحین سے تھا، تواب ایصال ثواب کی کیا حاجت، محض غلط اور بے معنی ہے۔ ایصال ثواب جس طرح منعِ عذاب یا رفعِ عقاب میں باذن اللہ تعالیٰ کام دیتا ہے یونہی رفعِ درجات وزیادت حسنات میں اور حق سبحانہ وتعالیٰ کے فضل اور اس کی زیادت وبرکت سے کوئی غنی نہیں۔۔۔جب حق جل وعلا کی دنیوی برکت سے بندہ کوغنا نہیں تو اس کی دینی برکت سے کون بے نیاز ہوسکتا ہے؟ صلحاء تو صلحا خود امام اعاظم ِاولیاء بلکہ حضرات انبیاء خود حضور پر نور نبی الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایصال ثواب زمانہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے اب تک معمول ہے حالانکہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام قطعاً معصوم ہیں،تو موتِ جمعہ یا صلاح کیا مانع ہوسکتی ہے۔“(فتاوی رضویہ، جلد09، صفحہ607، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   مفتی احمد یا رخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”دعائے مغفرت صرف گناہ کی معافی کے لیے نہیں بلکہ بلندی درجات کے لیے بھی ہوتی ہے،رب تعالیٰ نے فرمایا:"لِیَغْفِرَ لَکَ اللہُ(مرآۃ المناجیح، جلد5، صفحہ470، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم