
فتوی نمبر:Fsd-9270
تاریخ اجراء: 13 شعبان المعظم 1446ھ/12فروری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ ہمارے ہاں شبِ براءت کے موقع پر عرفہ منایا جاتا ہے، کیا یہ مناناضروری ہے،اگر کوئی نہ منائے ،تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
تیرہ یا چودہ شعبان المعظم کو لوگ اس سال میں فوت ہونے والے اپنے رشتہ داروں کے نام سے ایصال ثواب کرتے ہیں اور اس میں شیرینی یا حلوہ،وغیرہ بنا کر فاتحہ خوانی اور ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں ،اس کو عرفہ منانا یا عرفہ کا ختم کہتے ہیں۔
شبِ براءت کے موقع پر ”عرفہ “ کا ختم دلانا در اصل ایصال ثواب کی ہی ایک صورت ہے اور ایصال ثواب شرعا ً جائز و مستحسن عمل ہے،جس کا ثبوت آیاتِ قرآنیہ و احادیثِ نبویہ اور اقوالِ فقہاء وغیرہا میں واضح طور پر موجود ہے،لہٰذا اگر کوئی شبِ براءت آنے سے پہلے اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ و نیاز کا اہتمام کرے اور اسے لازم نہ سمجھتا ہو ، تو یہ بلاشبہ جائز ، بلکہ مستحب ہے،البتہ اس موقع پر ختم دلانے کے لیے بطورِ خاص ”عرفہ “کے نام سےشریعت ِ مطہرہ میں کوئی اصطلاح موجود نہیں اور نہ ہی شرعی طور پر یہ فرض،واجب یا سنت ہے، بلکہ یوں ضروری سمجھ کر کرنا درست نہیں،کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے لازم نہیں کیا ، اسی طرح اس حوالے سے جو بعض تَوَہُّمَات پائے جاتے ہیں ، مثلاً:تیرہ یا چودہ شعبان المعظم کو ہی ختم دلانے کو لازم سمجھنا یا میٹھی چیز پر ہی ختم دلاناضروری قرار دینا،یا یہ اعتقاد رکھنا کہ جب تک عرفہ کا ختم نہیں دلایا جائے گا ، روح بھٹکتی پِھرے گی، وغیرہا باتوں کی شرعاً کوئی حقیقت نہیں،ہاں!عُرفی لحاظ سےاس ختم کو ”عرفہ کا ختم “ کہہ دینے میں گناہ بھی نہیں ہے،جیساکہ عرفِ عام میں ایصال ثواب کے لیے مقرر کیےگئے دِنوں کو تیجہ ،ساتواں ، چالیسواں کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب بھی عُرفی الفاظ ہیں۔
یاد رہے ! ایصال ثواب کے لیے مختلف کھانوں کا اہتمام کرنا ہی ضروری نہیں ہے،بلکہ صدقہ خیرات ، اسی طرح غریبوں کی مدد یا کسی بھی طرح کے نیک عمل ، مثلاً:تلاوتِ قرآن پاک ، نوافل ، دُرود شریف ، ذکراللہ وغیرہ کر کے بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے اور کھانے کا انتظام کرکے فاتحہ دلانا بھی جائز ہے ،اس میں کوئی ممانعت نہیں۔
”عرفہ “کے نام سے دعا و فاتحہ خوانی کا اہتمام در اصل ایصال ِ ثواب ہے جو کہ جائز ہے،چنانچہ اپنے سے پہلے گزر جانے والے مسلمان بھائیوں کے لیے مغفرت کی دعا کرنے والوں کےمتعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَالَّذِیْنَ جَآءُوْمِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَاالَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ ترجمہ کنز الایمان: ”اوران کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔‘‘ (پارہ28،سورۃ الحشر، آیت 10)
مذکورہ بالاآیتِ مبارکہ کے متعلق تفسیر مظہری میں ہے:”قال السيوطی وقد نقل غير واحد الاجماع على ان الدعاء ينفع الميت ودليله من القرآن قوله تعالى﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ترجمہ: امام سیوطی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: کئی علماء نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ دعامیت کو فائدہ دیتی ہے اور اس کی دلیل قرآن پاک سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ﴾ہے۔(التفسير المظهری، سورة النجم ، تحت الاية 39، جلد 9، صفحہ 127، مطبوعہ کوئٹہ)
نیک اعمال کا ثواب دوسرے مسلمان بھائی کو پہنچانے کے متعلق ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:’’وعلیہ عمل المسلمين من لدن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الى يومنا هذا من زيارة القبور وقراءة القران عليها والتكفين والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابها للاموات ولا امتناع فی العقل ايضا لان اعطاء الثواب من اللہ تعالى افضال منه لا استحقاق عليه فله ان يتفضل على من عمل لاجله يجعل الثواب له كماله ان يتفضل باعطاء الثواب من غير عمل راسا“ترجمہ: قبروں کی زیارت کرنے اور قبروں پر جا کر تلاوتِ قرآن پاک کرنے ،( مُردوں کو) کفن دینے، صدقہ و خیرات کرنے ، روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے اور ان سب کا ثواب مُردوں کو پہنچانے پر مسلمانوں کا دورِ رسالت مآب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے لے کر آج کے دن تک عمل ہے اور ( نیک اعمال کر کے مُردوں کو ثواب ایصال کرنا )عقلاً بھی ناممکن نہیں،کیونکہ ثواب دینا اللہ تعالی کی طرف سے فضل ہے،اس پر لازم نہیں ہے، وہ چاہے،تو اس بندے پر بھی فضل فرمادے ، جس کو ثواب پہنچانے کے لیے کوئی بندہ عمل کرے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود مختار ہے وہ چاہے تو بغیر کسی عمل کے ہی کسی کو ثواب ( یعنی اپنا فضل ) عطا فرمادے۔(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، کتاب الحج ،جلد 3، صفحه 271، مطبوعہ كوئٹہ)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:” مسلمان مُردوں کو ثواب پہنچانا اور اجر ہدیہ کرنا ایک پسندیدہ اور شریعت میں مندوب امر (مستحب کام)ہے جس پر تمام اہلِ سنت وجماعت کا اجماع ہے،اس عمل کو درست قراردینے او ر اس کی رغبت دلانے سے متعلق حضور سید الابرار علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔“(فتاوٰی رضویہ ، جلد9،صفحہ570 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے میت کی روح کو نکالنے،عرفہ سے پہلے میت کے لیے فاتحہ الگ دینے اور برادری میں تقسیم کرنے کے متعلق سوال کیا گیا،تو آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جواباً ارشاد فرمایا:”روح نکالنا محض جہالت و حماقت وبدعت ہے، ہاں!فاتحہ دلانا اچھا ہے، شکر، چاول، مساکین کو تقسیم کرنا خوب ہے،مگر برادری میں موت کے لئے نہ بانٹا جائے،عرفہ تک یابعد تک اگر الگ ہمیشہ فاتحہ دیں،تو حرج نہیں، شامل رکھیں،تو حرج نہیں،یہ سمجھنا کہ عرفہ تک الگ کا حکم ہے، پھر شامل کا، یہ غلط وجہالت ہے، میّت کی دعوت برادری کے لیے منع ہے، ان کا بُرا ماننا حماقت ہے، ہاں! برادری میں جو فقیر ہو اُسے دینا (کسی)اَور فقیر کے دینے سے افضل ہے۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد9،صفحہ609،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
”عرفہ “کرنا کوئی شرعی اصطلاح نہیں ہے ، البتہ عرفی تعیین کے لحاظ سے ”عرفہ “ کا نام دینا گناہ بھی نہیں ،چنانچہ ایصال ِ ثواب کے لیے مقرر کیے گئے مختلف دِنوں کے متعلق اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”اور یہ تعیناتِ عرفیہ ہیں، ان میں اصلاً حرج نہیں ،جب کہ انہیں شرعاً لازم نہ جانے، یہ نہ سمجھے کہ اِنہی دنوں ثواب پہنچے گا، آگے پیچھے نہیں۔“(فتاوٰی رضویہ ، جلد9،صفحہ604 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)
جو عرفہ کا ختم نہ دلائے شرعاًاس پر کوئی گرفت نہیں ، جب کہ ایصال ثواب کو جائز سمجھتا ہو ، چنانچہ فتاوی بحر العلوم میں ہے :”عرفہ کرنا نہ سنت ہے ، نہ واجب ، بلکہ یہ ایصال ثواب ہے اور وہ مستحب فعل ہے ، جس کا جی چاہے کرے اور جس کا جی چاہے نہ کرے ، نہ کرنے پر طعنہ زنی کرنا غلط ہے۔‘‘ (فتاوی بحر العلوم ، جلد 2، صفحہ 97، مطبوعہ شبیر برادرز ، لاھور)
کھانے کے علاوہ نماز ،روزہ ،صدقہ و خیرات ، وغیرہا عبادات کاایصالِ ثواب کرنا بھی درست ہے،چنانچہ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”ایصال ثواب یعنی قرآن مجید یا درود شریف یا کلمہ طیبہ یا کسی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچانا جائز ہے۔عبادتِ مالیہ یا بدنیہ فرض و نفل سب کا ثواب دوسروں کو پہنچایا جاسکتا ہے، زندوں کے ایصال ثواب سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ کتب فقہ و عقائد میں اس کی تصریح مذکور ہے، ہدایہ اور شرح عقائد نسفی میں اس کا بیان موجود ہے۔“(بھارِ شریعت ، جلد3، حصہ 16، صفحہ 642، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مزارات اولیاء پر چادرچڑھانے کا حکم
کیا پہلے پیرکے انتقال کےبعد مرید دوسرے پیر سے مرید ہوسکتا ہے؟
غیر نبی کے ساتھ ”علیہ السلام“لکھنے کاحکم؟
اللہ تعالی کو سلام بھجوانا کیسا ہے؟
بزرگوں کےنام پرجانور کھلے چھوڑنا کیسا ہے؟
میت ،چہلم اور نیاز کے کھانے کا کیا حکم ہے؟
دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کووسیلہ بنانا کیسا؟
اگر صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے میلاد شریف کی محافل منعقد کر کے یومِ ولادت منانا ثابت نہیں تو کیا ایسا کرنا ناجائز ہوگا؟