
مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3609
تاریخ اجراء:27شعبان المعظم 1446ھ/26فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کسی نے 12 رکعت نفل ایک سلام سے پڑھنےکی نیت کی اور بھولے سے 10 کے بعد ہی سلام پھیر دیا ۔اب کیا تمام نفل دوبارہ پڑھنے ہو ں گے یا صرف 2 جو رہ گئے۔ شرعی حکم کیا ہو گا۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں دس رکعتیں نفل اداہوگئیں ،اب مزیددورکعت نفل پڑھنا لازم نہیں ہیں، اس لیےکہ نفل کا ہر شفع )یعنی دو رکعت (علیحدہ نماز ہے لہذا نیت اگرچہ 12 رکعت کی تھی لیکن نیت کرنے سے 12لازم نہیں ہوئی تھیں بلکہ اس سے صرف دوہی لازم ہوئی تھیں،اوردوہی شروع ہوئی تھیں،پھراس کے ساتھ جتنی شروع کی جاتی رہیں،وہ اداکرنے سے اداہوتی رہیں،اورجب 10 رکعات اداکیں تووہ 10اداہوگئیں لیکن اس سے آگے نفل شروع نہیں کیے تووہ لازم بھی نہیں ہوئے ۔
نوٹ:البتہ !یہ بات واضح رہے کہ ہمارے ائمہ رحمہم اللہ تعالی کے نزدیک ایک نیت میں دن کو چار رکعت سے زيادہ مکروہ ہے اور رات کو آٹھ رکعت سے زیادہ ، ،اورظاہرااس مکروہ سے مرادمکروہ تحریمی یعنی گناہ ہے اوردن میں اداکی جانے والی چاررکعات سے زائدنوافل کی نمازکی کراہت متفق علیہ ہے اوررات والی میں اختلاف ہے ،بلکہ افضل یہ ہے کہ دن ہو یا رات ہو ،چار چار رکعت پر سلام پھیر دے۔
نفل شروع کرنے سے صرف دو رکعت ہی لازم ہوتے ہیں،نہر الفائق شرح کنز الدقائق میں ہے"أن الشروع في النفل لا يوجب أكثر من ركعتين"ترجمہ: نفل نماز میں شروع ہونا دو رکعت سے زائد رکعت کو واجب نہیں کرتا۔(النھر الفائق شرح کنز الدقائق،جلد 01،صفحہ 330،دار الکتب العلمیۃ)
حلبی کبیر میں ہے"و الاصل ان کل رکعتین من النفل صلوۃ علی حدۃ و القیام الی الثالثۃ کتحریمۃ مبتدأۃ اتفاقا۔۔ ۔ اذا نوی اربعا و شرع لا یلزمہ الا شفع "ترجمہ: اصل یہ ہے کہ نفل کی ہر دو رکعت الگ ایک نماز ہے، اور تیسری رکعت کا قیام کرنا بالاتفاق ایک نئی نماز شروع کرنا ہے۔(لہذا) اگر کسی نے چار رکعتوں کی نیت کی اور شروع بھی کر دیئے، تو اس پر صرف دو رکعت ہی لازم ہوں گے۔(حلبی کبیر،صفحہ 341،مطبوعہ کوئٹہ)
امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :"ہمارے ائمہ رضی اللہ تعالی عنہم کے نزدیک ایک نیت میں دن کوچاررکعت سے زیادہ مکروہ ہے اوررات کوآٹھ سے زائدوظاھراطلاق الکراھۃ کراھۃ التحریم وقدنص فی ردالمحتار علی انہ لایحل فعلہ ،مگردن کی کراہت متفق علیہ اورشب کی کراہت میں اختلاف ہے۔"(فضائل دعا،ص307، مکتبۃ المدینہ)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”نفل نماز شروع کی، اگرچہ چار کی نیت باندھی، جب بھی دو ہی رکعت شروع کرنے والا قرار دیا جائے گا کہ نفل کا ہر شفع (یعنی دو رکعت) علیحدہ علیحدہ نماز ہے۔(بہار شریعت،جلد1،حصہ4،صفحہ669،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
دن اور رات کے نوافل کے متعلق بحر الرائق شرح کنز الدقائق میں ہے:”وكره الزيادة على أربع في نفل النهار وعلى ثمان ليلا أي بتسليمة، والأصل فيه: أن النوافل شرعت توابع للفرائض، والتبع لا يخالف الأصل، فلو زيدت على الأربع في النهار لخالفت الفرائض، وهذا هو القياس في الليل إلا أن الزيادة على الأربع إلى الثمان عرفناه بالنص“ترجمہ: دن میں چار رکعتوں سے زیادہ اور رات میں آٹھ رکعتوں سے زیادہ، ایک سلام کے ساتھ نفل پڑھنا مکروہ ہے، اس بارے میں اصل یہ ہے کہ نفل نمازیں اس طور پر مشروع ہوئی ہیں کہ یہ فرض نمازوں کے تابع ہیں، اور تابع کبھی اصل کے مخالف نہیں ہوتی،لہذا اگر دن میں چار سے زیادہ رکعتیں بڑھا دی جاتیں، تو یہ فرض نمازوں کے خلاف ہوتا، اور رات کے نوافل کے متعلق بھی قیاس تو یہی ہے،مگر رات میں چار سے آٹھ رکعتوں تک کی اجازت کو ہم نے نص سے پہچان لیا۔(البحر الرائق شرح کنز الدقائق،جلد 02،صفحہ 57،دار الکتاب الاسلامی)
بہار شریعت میں ہے" دن کے نفل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت سے زيادہ اور رات میں آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے، اور افضل یہ ہے کہ دن ہو یا رات ہو ،چار چار رکعت پر سلام پھیرے۔" (بہار شریعت،جلد 01، حصہ 04،صفحہ 667،مکتبۃ المدینۃ کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم