5 Rakat Farz Parhne Par Sajda Sahw Se Namaz Ka Hukum

پانچ رکعت فرض پڑھنے پر سجدہ سہو سے نماز کا حکم

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FAM-481

تاریخ اجراء:13 محرم الحرام6144ھ/20 جولائی2024

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ چار رکعت فرض پڑھ رہے تھے، لیکن پانچ رکعت  پڑھ لیں، تو  اب سجدہ سہو کرنے  سے نماز ہو جائے گی یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   چار رکعت والی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھنے سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص   چار رکعت والی  نماز  میں قعدہ اخیرہ  کرنا بھول جائے   اور پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے ،تو ایسی صورت میں  اُسے حکم ہے کہ جب تک اُس نے  پانچویں  رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو،تو   لوٹ آئے اور قعدہ اخیرہ  کرکے سجدۂ سہو کرےاور اپنی نماز مکمل کرے، ایسی صورت میں سجدہ سہو کرنے سے  نماز  ہو جائے گی۔ البتہ اگر  قعدہ  اخیرہ کیے  بغیر پانچویں کے لئے کھڑے ہو جانے کے بعدواپس نہ لوٹا اورپانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا، تو اب  فرض باطل ہو جائیں گے، مگر   نماز فاسد نہیں ہو گی، بلکہ نفل ہوجائے گی، اب اسے اختیار ہوگا کہ چاہے تو مزید ایک رکعت  اور  ملا لےتاکہ  چھ رکعت نفل ہوجائیں اور اس صورت میں فرض نئے سرے سے پڑھنے ہوں گے، اور  اصح قول کے مطابق اس صورت میں نمازی سجدہ سہو نہیں کرے گا کہ یہاں  فرض ہی باطل ہو گئے  ہیں، جس کی تلافی سجدہ سہو سے نہیں ہوسکتی، لہذا اس کی حاجت بھی نہیں۔

   اور اگر نمازی  چوتھی رکعت پر   قعدہ اخیرہ کرنے کے بعد بھول کرپانچویں رکعت   کے لیے کھڑا ہو جائے، تو  یہاں بھی  یہی حکم ہے کہ وہ  پانچویں  رکعت کا سجدہ کرنے سے پہلے یاد آنے کی صورت میں واپس لوٹ آئے  اور سجدہ سہو کرکے  اپنی نماز مکمل کرے، اس صورت میں بھی سجدہ سہو کرنے سے نماز  ہوجائے گی، لیکن  اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا، تو اب   ایک رکعت اور ملا نی ہوگی، اور پھر  آخر میں سجدہ سہو کرنا ہوگا، یوں   اس طرح اس کے چار فرض اور آخری دو رکعتیں نفل ہو جائیں گی۔

   قعدہ اخیرہ کیے بغیر، یا قعد ہ اخیرہ کرکے پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوا، تو حکم ہے کہ   پانچویں کے سجدے سے پہلے لوٹ آئے، اور دونوں صورتوں میں  سجدہ سہو کرکے نمازپوری کرلے، چنانچہ منیۃ المصلی اور اس کی شرح غنیۃ المتملی میں ہے:’’وان سھا عن القعدۃ الاخیرۃفی ذوات الاربع وقام الی الخامسۃیعود الی القعدۃ ما لم یسجد للخامسۃ...ویتشھد ویسلم  ویسجد للسھو لتاخیر القعدۃ...وان قعد فی آخر الرکعۃ الرابعۃ ثم قام قبل ان یسلم یعود ایضا ما لم یسجد ویسلم لیخرج عن الفرض بالسلام ... ويسجد للسھو  لانہ اخر واجبا وھو السلام بسبب فعل زائد  لم یلحق بالصلوۃ‘‘ ترجمہ:اگر کوئی شخص چار رکعت والی نماز میں قعدہ اخیرہ بھول جائے اور پانچویں کے لیے کھڑا ہوجائے تو جب تک پانچویں کا سجدہ نہ کیا ہو، قعدہ کی طرف لوٹ آئے، تشہد پڑھے اور قعدہ میں تاخیر ہونے کی وجہ سے   سجدہ سہو کرکے سلام پھیردے اور اگر چوتھی رکعت میں بیٹھا ہو، پھر سلام سے پہلے پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے ،تو اس صورت میں بھی  جب تک پانچویں کا سجدہ نہ کیا ہو  ،لوٹ آئے اور سلام پھیرے تا کہ سلام کے ذریعہ فرض نماز سے باہر ہوجائے۔۔۔اور سجدہ سہو کرے،کیونکہ اس نے واجب یعنی سلام کو  ایسے زائد فعل کے سبب مؤخر کیا جو نماز  کے ساتھ  لاحق نہیں۔(منیۃ المصلی مع غنیۃ المتملی، صفحہ399-400،مطبوعہ کوئٹہ)

   اگر قعدہ اخیرہ کیے بغیر کھڑا ہوگیا   اور پانچویں  رکعت کا سجدہ بھی کرلیا، تو فرض باطل ہوگئے، جیسا کہ غنیۃ المتملی میں ہے:”رجل صلی الظھر ونحوھا خمسا بان قید الخامسۃ بالسجدۃ ولم یقعد علی رأس الرابعۃ بطلت فرضیتہ أی فرضیۃ صلوتہ“ ترجمہ: کوئی شخص  ظہر یا اس جیسی  نماز(یعنی عصر یا عشاء ) میں  پانچ رکعتیں  پڑھ لے،اس طرح کہ  پانچویں رکعت  کا سجدہ کرلے ،اور اس نے  چوتھی پر قعدہ نہ کیا ہو، تو اس  صورت میں اس  نماز کی فرضیت باطل ہوجائے گی۔(غنیۃ المتملی، صفحہ253، مطبوعہ کوئٹہ)

   اگر قعدہ اخیرہ  کیے بغیر پانچویں  رکعت کے لیے کھڑا ہوا،اور سجدہ  بھی کرلیا ،تو  فرض باطل ہوگئے ،اس صورت میں اصح قول کے مطابق سجدہ سہو نہیں ،اور اگر قعدہ اخیرہ کرکے پانچویں کے لیے کھڑا ہوگیا اور سجدہ کرلیا، تو  اب ایک رکعت اور ملائے تاکہ   چار فرض اور  دو نفل ہوجائیں اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرے،چنانچہ تنویر الابصار مع درمختارمیں ہے:”(ولو سها عن القعود الاخير عاد ما لم يقيدها بسجدۃ وإن قيدها) بسجدة عامدا أو ناسيا أو ساهيا أو مخطئا (تحول فرضه نفلا برفعه۔۔۔۔وضم سادسةإن شاء ولا يسجد للسهو على الاصح) لان النقصان بالفساد لا ينجبر(وان قعدفی الرابعۃ ثم قام عاد وسلم  وان سجد للخامسۃ ۔۔۔ضم الیھا سادسۃ) لو فی العصرو خامسۃ فی المغرب ورابعۃ فی الفجر،بہ یفتی( لتصیر الرکعتان لہ نفلاوسجد للسھو) فی الصورتین:لنقصان فرضہ بتاخیر السلام فی الاولی و ترکہ فی الثانیۃ“ ترجمہ:اور اگر قعدہ اخیرہ بھول گیاتو جب تک سجدہ نہ کیا ہو لوٹ آئے، اور اگر جان بوجھ کر یا بھول کر یا غلطی سے سجدہ کرلیا، تو سجدے سے سر اٹھاتے ہی وہ فرض نفل ہوجائیں گئے، اب چاہے تو چھٹی رکعت ملالے  اور اصح قول کے مطابق سجدہ سہو نہیں کرے گا، کیونکہ فساد کا نقصان سجدہ سہو سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر چوتھی رکعت میں قعدہ کیا، پھر (بھول) کر کھڑا ہوگیا، تو لوٹے اور سلام پھیرے اور اگر  پانچویں  کا سجدہ کرلیا، تو اب چھٹی رکعت بھی ملالے   اگر  چہ نماز ِعصر ہواورمغرب میں پانچویں اور فجر میں چوتھی رکعت ملالے، یہ مفتیٰ بہ قول ہے، تاکہ یہ آخری دو رکعتیں  نفل ہو جائیں  اور دونوں صورتوں میں(یعنی پانچویں کا سجدہ   کرنے سے پہلے یاد آجانے یا پانچویں کا سجدہ کرلینے کی صورت میں ) سجدہ سہو کرے گا، کیونکہ پہلی صورت میں سلام کی تاخیر سے  فرض میں کوتاہی  ہوئی۔اور دوسری صورت میں (فرض نماز کے )سلام کا ترک ہوا۔

   در مختار کے حاشیہ ردالمحتار میں ہے: ”(قوله إن شاء) أشار إلى أن الضم غير واجب بل هو مندوب كما في الكافي تبعا للمبسوط، وفي الأصل ما يفيد الوجوب، والأول أظهر كما في البحر۔۔۔ (قوله لأن النقصان) أي الحاصل بترك القعدة لا ينجبر بسجود السهو‘‘ترجمہ: اورماتن کا قول کہ اگر چاہے تو، یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ(قعدہ کیے بغیر کھڑے ہوکر   پانچویں کا سجدہ کرلینے کی صورت میں  مزید ایک رکعت) ملانا  واجب نہیں،بلکہ مستحب ہے  جیسا کہ کافی میں مبسوط کی اتباع میں ہے اور اصل میں وہ بات ہے، جو وجوب کا فائدہ دیتی ہے، اور پہلی بات زیادہ ظاہر ہے جیسا کہ بحر میں ہے۔۔۔اور  شارح کا قول(کیونکہ نقصان۔۔الخ) یعنی قعدے کو چھوڑنے سے حاصل ہونے والا نقصان،سجدہ  سہو سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔(تنویر الابصار مع درمختار ورد المحتار، جلد2، صفحہ668،664،دارا لمعرفۃ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم