اذان و اقامت میں کلمہ شہادت پر انگلی اٹھانے کا حکم؟

التحیات کے علاوہ اذان و اقامت وغیرہ میں کلمہ شہادت پر انگلی اٹھانا کیسا؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0433

تاریخ اجراء:06 ربیع الثانی 1446ھ/ 10 اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ کلمہ شہادت کے وقت مختلف مواقع پر جو شہادت کی انگلی اٹھائی جاتی ہے، جیسے التحیات میں، اسی طرح عوام میں یہ رائج ہے کہ  وہ  وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے  اور  اذان و اقامت  میں کلمہ شہادت کے وقت شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یہ جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب التحیات میں کلمہ شہادت پڑھا جائے،اس وقت شہادت کی اُنگلی کے ذریعے اشارہ کرنا  تو متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، اس لئے فقہائے کرام علیہم الرحمۃنے اس کو سنت قرار دیا اورنماز کے علاوہ بھی کلمہ شہادت پر شہادت کی انگلی اٹھانا درست ہے، کیونکہ اولاً  تو اس کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں اور یہی اس کے جائز ہونے کے لیے کافی ہے۔ ثانیاً  یہ کہ   التحیات میں کلمہ شہادت پر انگلی اٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ  زبان کے ساتھ ساتھ اعضاء کے ذریعے  اللہ پاک کی توحید کی تصدیق اور باطل معبودوں کا انکار ہو اور نماز کے علاوہ  دیگر مواقع پر اسی مقصد کیلئے شہادت کی انگلی اٹھائی جاتی ہے، لہٰذا یہ بھی جائز ہے۔ ثالثًا   نماز کے علاوہ کئی مواقع پر شہادت کی انگلی اٹھانے کی فقہائے کرام نے صراحت بھی کی ہے، جن میں ایک یہی موقع  یعنی وضو کرنے کے بعد کلمہ شہادت پڑھنے کا ہے۔

   تشہد میں انگلی سے اشارہ کرنا متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، چنانچہ صحیح مسلم شریف میں ہے :”عن عامر بن عبد اللہ بن الزبير، عن أبيه، قال: كان رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، ويده اليسرى على فخذه اليسرى، و أشار باصبعه السبابة ترجمہ: حضرت عامر اپنےوالد حضرت عبدا للہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قعدہ میں تشہد پڑھنے کےلیے بیٹھتے، تواپنا دایاں ہاتھ اپنی دائیں ران پر اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھتے اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے۔(الصحیح لمسلم، ج 1، ص 408، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی)

   اسی لئے فقہائے کرام علیہم الرحمۃ نے اس کو سنت  قرار دیا ہے، چنانچہ علامہ ابن امیر الحاج  علیہ الرحمۃ حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی میں لکھتے ہیں: ”ذکر محمد حدیثا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أنہ کان یشیر باصبعہ فیفعل ما فعل  النبی صلی اللہ علیہ وسلم و لا جرم لما اتفقت الروایات عن أصحابنا جمیعا فی کونھا سنۃ و کذا عن  الکوفیین و المدنیین و کثرت الأخبار و الآثار کان العمل بھا أولیٰ“ ترجمہ: امام محمد علیہ الرحمۃ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث ذکر کی ہے کہ آپ علیہ السلام تشہد میں اپنی مبارک انگلی سے اشارہ فرماتے تھے تو وہی کیا جائےگا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور بلا شبہ جب  ہمارے  تمام اصحاب احناف سے   منقول ہونے والی روایات اس کے سنت ہونے پر متفق ہیں اور اسی طرح جب اہل کوفہ و اہل مدینہ  سے یہی مروی ہے اور اخبار و آثار بھی اسی پر کثرت سے وارد ہیں تو اسی پر عمل کرنا اولیٰ ہے۔(حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی، ج 02، ص 204، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   اعلیٰ حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمۃ فتاوٰی رضویہ شریف میں لکھتے ہیں :”فقیر اور فقیر کے آبائے کرام و مشائخ عظام و اساتذہ اعلام قدست اسرارہم کا ہمیشہ معمول باتباعِ احادیث متواترہ و ارشاداتِ کتب متکاثرہ رفعِ سبابہ رہا اور اسے سنّت جانتا ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 189، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   التحیات میں شہادت کی انگلی اٹھانے کا مقصد   بیان کرتے ہوئے،علامہ ابن امیرالحاج علیہ الرحمۃ  حلبۃ  المجلی میں لکھتے ہیں :”ان التوحید مرکب من نحو نفی و اثبات فیکون رفعھا اشارۃ الی احد شقی التوحید و ھو نفی الالوھیۃ عن غیر اللہ تعالیٰ  و وضعھا اشارۃ الیٰ الشق الآخر و ھو اثبات الالوھیۃ للہ وحدۃ فتقع بھا  الاشارۃ الی مجموع التوحید“ ترجمہ: توحید نفی و اثبات دو چیزوں سے مرکب ہے تو انگلی کا اٹھانا توحید کی دو شقوں میں سے ایک کی طرف اشارہ ہوگا اور وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے الوہیت کی نفی ہے اور اس انگلی کو گرانا دوسری شق کی طرف  اشارہ ہوگا اور وہ  صرف اللہ تعالیٰ کیلئے الوہیت کا ثبوت ہے تو اس کے ذریعے توحید کے مجموعہ کی  طرف اشارہ واقع ہوگا۔(حلبۃ المجلی شرح منیۃ المصلی، ج 02، ص 205، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھتے وقت انگلی اٹھانے کے متعلق، مراقی الفلاح مع  حاشیۃ الطحطاوی میں وضو کے مستحبات کے بیان میں ہے: ”(و الاتیان بالشھادتین بعدہ قائماً مستقبلاً) ذکر الغزنوی انہ یشیر بسبابتہ حین ینظر  الی السماء“ ترجمہ:اوروضوکےبعدقبلہ کی طرف کھڑےہوکر شہادتین پڑھنا (مستحب ہے)۔ غزنوی نےذکرکیاکہ جب آسمان کی طرف دیکھےتواپنی شہادت والی انگلی سےاشارہ کرے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الایضاح، ج 01، ص 77، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

   حافظِ ملت حضرت علامہ مفتی عبد العزیز محدث مراد آبادی علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا :”اشہد ان لا الہ الا اللہ پر کلمہ کی انگلی اٹھانا جو عوام میں رائج ہے، اس کی کیا سند ہے؟ تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا :”اس کی کوئی سند میری نظر میں نہیں اور اس سے ممانعت بھی نہیں، اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں۔“

   اس پر فقیہ العصر حضرت علامہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی دام ظلہ حاشیہ میں لکھتے ہیں :”عوام کا عمل یہ ہے کہ اذان میں، اقامت میں، خطبے میں، خطیب کی تقریر میں نیز دوسرے مواقع پر بھی جب کلمہ شہادت سنتے ہیں تو ’’أن لا إلہ‘‘ پر کلمے کی انگلی اٹھاتے ہیں، اس طرح کے مواقع پر انگلی اٹھانا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم  سے معلوم نہیں ،فتوی میں عوام کے اسی عمومی عمل کے بارے میں حضرت نے لکھا ہے کہ ” اس کی کوئی سند میری نظر میں نہیں “یعنی عام حالات میں کلمہ شہادت پر سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انگلی اٹھانا میرے علم میں نہیں ۔ہاں! نماز میں التحیات پڑھتے وقت ’’أن لا إلہ‘‘ پر سرور کائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم   نے انگلی اٹھائی۔ یہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ انگلی اٹھانے کا مقصد ’’لا إلہ‘‘ کی تائید وتصدیق ہے یعنی معبود باطل کی نفی۔ اس مقصد کے پیش نظر اگر تشہد کےعلاوہ  دوسرے مقامات پر بھی انگلی اٹھائی جائےتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ یہاں بھی وہی معبود باطل کی نفی ہے، اس طرح دیکھا جائے تو عوام الناس کے موجودہ عمل کی اصل حدیث نبوی میں ملتی ہے، اس لئے یہ ناجائز نہیں ہے کہ ناجائز قرار دینے کیلئے دلیل منع چاہئے اور وہ یہاں مفقود ہے۔“(فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد 05، صفحہ 364، مجلس فقھی، مبارک پور اشرفیہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم