
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9296
تاریخ اجراء:18 رمضان المبارک 1446 ھ/ 19 مارچ 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا تراویح میں لقمہ دینے کے لیے ایسے نابالغ حافظ کو پہلی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں؟ جو سمجھدار ہو، نماز کی ادائیگی کا طریقہ جانتا ہو۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
تروایح میں نابالغ بچے کے لقمہ دینے کے متعلق حکم شرعی ہے کہ نابالغ، سمجھدار اور نماز کا طریقہ جاننے والا بچہ بھی لقمہ دے سکتا ہے، کیونکہ لقمہ دینے والے کا بالغ ہونا شرط نہیں۔
نابالغ سمجھدار بچوں کی صف کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ اگر نابالغ سمجھ دار بچے زیادہ ہوں، تو اُنہیں مَردوں کے پیچھے الگ صف میں کھڑا کیا جائے، لیکن اگر بچہ ایک ہی ہو، تو اسے مردوں کی صف میں کھڑا کیا جائے۔
اس تفصیل کے بعد صورت مسئولہ میں نابالغ حافظ کو پہلی صف میں کھڑا کرنے کے حوالے سے جواب یہ ہے کہ اولا بہتر یہی ہے کہ اگر بچے زیادہ ہوں، لقمہ دینے میں دِقّت نہ ہو اور آسانی سے امام صاحب تک آواز پہنچ جائے، تو اس حافظ کو پہلی صف میں کھڑا نہ کیا جائے، بلکہ مردوں کی صف کے بعد دیگر بچوں کے ساتھ کھڑا کیا جائے لیکن اگر یہی نابالغ بچہ اکیلا ہو، تو پھر اسے مردوں کی پچھلی صفوں میں کھڑا کیا جائے، ہاں اگر پیچھے کھڑا کرنے میں لقمہ دینے میں دِقّت ہو کہ امام صاحب تک آواز نہیں پہنچے گی یا امام صاحب درست انداز میں لقمہ قبول نہیں کر سکیں گے اور غلط پڑھ دیں گے، تو لقمہ کی حاجت و ضرورت کے پیش نظر اس نابالغ حافظ کو مردوں کی پہلی صف میں کھڑا کرنے میں حرج نہیں، کیونکہ نماز میں لقمہ کی مشروعیت کامقصد نماز کو فساد سے بچانااور نماز تراویح میں اس فساد سے بچنےکے علاوہ مکمل قرآن کی تلاوت میں کمی رہ جانے سے بچنا ہے۔
نماز میں لقمہ دینے والے کا بالغ ہونا شرط نہیں، جیسا کہ بہارشریعت میں ہے: ’’لقمہ دینے والے کے لیے بالغ ہونا شرط نہیں، مراہق بھی لقمہ دے سکتا ہے، بشرطیکہ، نماز جانتا ہو، اور نماز میں ہو۔‘‘ (بھار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 608، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)
اگر بچوں کی تعداد زیادہ ہو، تو ان کی صف مردوں کی صف کے بعد بنائی جائے، جیساکہ صحیح مسلم میں حدیث پاک ہے: ”كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يمسح مناكبنا في الصلاة و يقول: استووا، و لا تختلفوا فتختلف قلوبكم ليلني منكم أولو الأحلام و النهى، ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم“ ترجمہ: (راوی بیان کرتے ہیں کہ )نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نماز کے لیے ہمارے کندھوں کو مَس (ٹچ) کرتے اور فرماتے، صفیں سیدھی کر لو، ٹیڑھے نہ ہو کہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے، میرے قریب بالغ اور سمجھ دار افراد کھڑے ہوں، پھر جو ان سے قریب ہوں، اس کے بعد جو ان سے قریب ہوں۔ (صحيح مسلم، باب تسوية الصوف، جلد 1، صفحۃ 323، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي، بيروت)
اس حدیثِ مبارک کے تحت مرقاۃ المفاتیح میں ہے :”(ثم الذين يلونهم): كالمراهقين، أو الذين يقربون الأولين في النهى و الحلم، (ثم الذين يلونهم): كالصبيان المميزين، أو الذين هم أنزل مرتبة من المتقدمين حلما و عقلا، و المعنى أنه هلم جرا“ ترجمہ: (پھر وہ جو ان کے قریب ہوں): جیساکہ قریب البلوغ لڑکے یا اس سے مراد وہ افراد ہیں جو بلوغت اور عقلمندی میں پہلی صف والوں سے کم ہوں، (پھر وہ جو ان کے قریب ہوں): جیسا کہ سمجھ بوجھ والے نابالغ بچے یا اس سے مراد وہ افراد ہیں جو بلوغت اور عقلمندی میں اگلی صف والوں سے کم ہوں، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ صفوں کی ترتیب یونہی چلے گی۔ (مرقاة المفاتيح، جلد 3، صفحۃ 154- 155، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ)
درمختار میں ہے :”و یصف الرجال ثم الصبیان، ظاهرہ تعدّدهم، فلو واحدا دخل الصف“ ترجمہ: پہلے مرد صف بنائیں پھر اُن کے پیچھے بچے بنائیں، اس کا ظاہر یہی ہےکہ یہ مسئلہ تب ہے کہ جب بچے زیادہ تعداد میں ہوں، لیکن اگر بچہ ایک ہی ہو، تو وہ مردوں کی صف میں کھڑا ہوگا۔ (در مختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 377، مطبوعہ کوئٹہ)
نابالغ بچہ اگر اکیلا ہو، تو مردوں کی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے، جیساکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بالغ مرد کے ساتھ صف میں کھڑا کیا، چنانچہ بخاری شریف میں ہے: ”فقام رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم، و صففت و اليتيم وراءه، والعجوز من ورائنا، فصلى لنا رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم ركعتين، ثم انصرف“ ترجمہ: پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جماعت کروانے کے لیے کھڑے ہوئے، میں (حضرت انس) نے اور یتیم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے صف بنائی اور ضعیف خاتون نے ہمارے پیچھے صف بنائی، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائی اور نماز مکمل کرنے کے بعد سلام پھیر دیا۔(صحیح البخاری، جلد 1، صفحہ 86، مطبوعہ دار طوق النجاۃ)
فتاوی رضویہ میں ہے: ”اور یہ بھی کوئی ضروری اَمرنہیں کہ وہ صف کے بائیں ہی ہاتھ کو کھڑاہو علماء اسے صف میں آنے اور مَردوں کے درمیان کھڑے ہونے کی صاف اجازت دیتے ہیں۔ درمختار میں ہے :”لو واحداً دخل فی الصف“ (اگر بچہ اکیلا ہو توصف میں داخل ہو جائے)۔“(فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 51، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
نماز کو فساد سے بچانے کی ضرورت و حاجت کی وجہ سے نابالغ بچوں کو مردوں کی صف میں کھڑا کرنا بھی جائز ہے، جیساکہ طوالع الانوار میں ہے :”ربما يتعين في زماننا إدخال الصبيان في صفوف الرجال لأن المعهود منهم إذا اجتمع صبيان فأكثر تبطل صلاتهم بعضهم ببعض و ربما تعدی ضررهم إلي إفساد صلاة الرجال“ ترجمہ: خاص کر ہمارے زمانے میں بچوں کو مردوں کی صف میں کھڑا کرنا ہی متعین ہے ،کیونکہ یہ بات طے ہے کہ جب بچے زیادہ ہوں، تو اکثر و بیشتر وہ ایک دوسرے کی نماز کو باطل کر دیتے ہیں اور کبھی کبھار ان بچوں کی طرف سے ایسا ضرر لاحق ہوتا ہے، جو نماز کو فاسد کرنے کی طرف لے جاتا ہے، (لہذا ایسے بچوں کو مردوں کی صف میں ہی کھڑا کیا جائے)۔ (طوالع الانوار لشرح الدر المختار، جلد 2، حصہ 1، صفحہ 48، مخطوطہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم