قیام کیے بغیر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہونا

تکبیر تحریمہ کے بعد قیام نہیں کیا اور امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوگیا تو نماز کا حکم ؟

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام صاحب پہلی رکعت کے رکوع میں تھے، زید آیا اور "اللہ اکبر" کہتا ہوا رکوع میں چلا گیا، ایک مرتبہ "سبحان اللہ" کہنے کی مقدار بھی نہیں رکا، حالانکہ واجب تھا کہ کم از کم ایک مرتبہ "سبحان اللہ" کی مقدار رکے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں زید کی نماز ہوئی یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر زید نے امام صاحب کو دوسری رکعت کے رکوع میں پایا، تو کیا آخر میں سجدہ سہو کرے گا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

(۱) سوال میں جو تکبیر تحریمہ کے بعد ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار ٹھہرنے کو واجب کہا گیا، یہ غلط ہے۔ اس کے برعکس صحیح یہ ہے کہ مسبوق تکبیر تحریمہ کہنے اور رکوع میں پہنچنے تک جس قدر قیام کرتا ہے، وہی اسے کفایت کرے گا، اگرچہ تکبیر کہنے کے بعد بغیر رکے رکوع میں چلا جائے؛ کیونکہ اس پر بحالت قیام ٹھہرنا لازم نہیں، لہٰذا صورت مسئولہ میں زید کی نماز ہو جائے گی بشرطیکہ اس نے تکبیر تحریمہ کھڑے کھڑے کہی ہو یعنی رکوع کا ادنی درجہ (کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں) حاصل ہونے سے پہلے تکبیر پوری کر لی ہو، البتہ اس صورت میں زید سے تکبیر رکوع فوت ہوئی جو کہ مکروہ ہے؛ اس لیے کہ تکبیر رکوع کہنا نماز کی سنتوں میں سے ہے۔ واضح رہے کہ جن نمازوں میں قیام فرض ہے، ان میں تکبیر تحریمہ بھی کھڑے ہونے کی حالت میں کہنا فرض ہے، اگر جھکتے ہوئے کہی اور لفظ اللہ اکبر رکوع کی حالت میں ختم ہوا، اگرچہ اتنی حالت میں کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنوں تک پہنچ جائیں تو نماز نہ ہوگی۔

(۲) سجدۂ سہو کسی واجب کے بھولے سے چھوٹنے کی تلافی کے طور پر کیا جاتا ہے، محض امام کے ساتھ دوسری رکعت میں ملنے کی وجہ سے سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا۔ البتہ امام اگر سجدۂ سہو کرے تو مسبوق سجدۂ سہو میں اس کی پیروی کرے گا، اگرچہ اس کے ملنے سے پہلے سہو واقع ہوا ہو۔

رئیس العلماء علامہ محمد عابد بن احمد سندھی مدنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1257ھ/1841ء) لکھتے ہیں:

”ولو كبر قائما فركع ولم يقف صح لأن ما أتى به من القيام إلى أن يبلغ الركوع يكفيه يعني فصار مؤديا فرض التكبير والقيام جميعا فلا يلزم بعده الوقوف قائما، هذا يحمل علي من لا قراءۃ عليه“

 ترجمہ: اور اگر کسی نے کھڑے کھڑے تکبیر کہی پھر بغیر ٹھہرے رکوع میں چلا گیا تو یہ صحیح ہے؛ کیونکہ جو قیام اس نے رکوع میں پہنچنے تک کیا، وہ اسے کفایت کرے گا، یعنی (تکبیر تحریمہ کہتے ہی) وہ تکبیر اور قیام دونوں کا فرض ادا کرنے والا ہو گیا، پس اس کے بعد بحالت قیام ٹھہرنا لازم نہیں، یہ حکم اس شخص پر محمول ہے جس پر قرات لازم نہ ہو۔ (طوالع الأنوار شرح الدر المختار، کتاب الصلاة،  باب صفة الصلاة، جلد  1، صفحه  576، مخطوطه)

عمدۃ المحققین علامہ علاؤ الدین محمد بن علی  حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:

ما بين القوسين عبارة رد المحتار

”ويشترط كونه قائما (أي في الفرض مع القدرة على القيام) فلو وجد الإمام راكعا فكبر منحنيا، إن إلى القيام أقرب (بأن لا تنال يداه ركبتيه) صح“

 ترجمہ: اور تکبیر کا کھڑے ہو کر کہنا شرط ہے یعنی فرض نماز میں جبکہ کھڑے ہونے پر قدرت ہو۔ پس اگر کسی نے امام کو رکوع کی حالت میں پایا اور تکبیر جھکتے ہوئے کہی، تو اگر وہ قیام کے زیادہ قریب ہو بایں طور کہ اس کے ہاتھ گھٹنوں تک نہ پہنچتے ہوں تو (اس کی نماز کی ابتدا)  صحیح ہو گی۔ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاة، ‌‌باب صفة الصلاة ، جلد  1، صفحہ  480،   دار الفکر، بیروت)

علامہ بدر الدین ابو محمد محمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:

تكبيرة الركوع وتكبيرة النهوض ليستا من صلب الصلاة؛ لأنه لو تركها تارك لم تفسد عليه صلاته وهما من سننها“

 ترجمہ: رکوع کی تکبیر اور اٹھنے کی تکبیر (یعنی تسمیع) اصلِ نماز سے نہیں ہیں؛ کیونکہ اگر کوئی شخص انہیں چھوڑ دے تو اس کی نماز اس پر فاسد نہیں ہوتی، (بلکہ) یہ نماز کی سنتوں میں سے ہیں۔ (نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار ، كتاب الصلاة، جلد 4، صفحہ 198، مطبوعہ قطر)

شیخ برہان الدین ابراہیم بن محمد حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 956ھ/1549ء) لکھتے ہیں:

”ان السنّة أن يكون ابتداء الذكر عند ابتداء الانتقال، وانتهاؤه عند انتهائه كما تقدم فمخالفة ذلك مخالفة للسنة فيكره وفيه أي في الإتيان المذكور كراهتان إحداهما تركها أي ترك الأذكار في موضعه أي في موضع الذكر وهو حال الانتقال“

 ترجمہ: سنت یہ ہے کہ ذکر کی ابتدا، انتقال کی ابتدا کے وقت ہو، اور اس کا اختتام، انتقال کے اختتام کے وقت ہو، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ پس اس کے خلاف کرنا سنت کے مخالف ہے، اس لیے مکروہ ہے، اور مذکورہ  (خلاف سنت انداز پر) ادا کرنے میں دو کراہتیں ہیں، جن میں سے ایک اذکار کا ان کی جگہ یعنی ذکر کے اصل مقام جو کہ حالتِ انتقال ہے، اس پر ترک کرنا ہے۔ (غنية المتملي، فصل في بیان ما يكره فعله، جلد2، صفحہ  239، یو پی  ، ھند)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 855ھ/1451ء) لکھتے ہیں:

ولو وقع "الله" قبل ركوعه، و "أكبر" في ركوعه، لا يصير شارعا“

 ترجمہ: اور اگر لفظِ الله رکوع سے پہلے اور لفظِ أكبر رکوع کی حالت میں واقع ہوا تو وہ نماز شروع کرنے والا نہیں ہوگا۔ (البنایة شرح الهدایة، کتاب الصلاة، ‌‌باب في صفة الصلاة، جلد  2، صفحہ  176،   المطبعة الخيرية)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں: ”(مسبوق) فقط تکبیر تحریمہ کہہ کر رکوع میں مل جائے گا تو نماز ہو جائے گی، مگر سنت یعنی تکبیر رکوع فوت ہوئی، لہذا یہ چاہیے کہ سیدھا کھڑا ہونے کی حالت میں تکبیر تحریمہ کہے اور "سبحٰنک اللّٰھم" پڑھنے کی فرصت نہ ہو یعنی احتمال ہو کہ امام جب تک سر اٹھا لے گا، تو معاً دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے اور امام کا حال معلوم ہو کہ رکوع میں دیر کرتا ہے، "سبحٰنک اللّٰھم" پڑھ کر بھی شامل ہو جاؤں گا تو پڑھ کر رکوع کی تکبیر کہتا ہوا شامل ہو، یہ سنت ہے، اور تکبیر تحریمہ کھڑے ہونے کی حالت میں کہنی تو فرض ہے، بعض ناواقف جو یہ کرتے ہیں کہ امام رکوع میں ہے، تکبیر تحریمہ جھکتے ہوئے کہی اور شامل ہو گئے، اگر اتنا جھکنے سے پہلے کہ ہاتھ پھیلائیں تو گھٹنے تک پہنچ جائیں، "اللہ اکبر" ختم نہ کر لیا تو نماز نہ ہوگی، اس کا خیال لازم ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد  7، صفحہ  235،   رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

ملک العلماء علامہ ابو بكر بن مسعود كاسانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ   (سال وفات: 587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:

”فسبب وجوبه ترك الواجب الأصلي في الصلاة، أو تغييره أو تغيير فرض منها عن محله الأصلي ساهيا؛ لأن كل ذلك يوجب نقصانا في الصلاة فيجب جبره بالسجود“

  ترجمہ: پس سجدہ سہو کے واجب ہونے کا سبب نماز میں بھول کر واجبِ اصلی کا ترک کرنا، یا اس میں تبدیلی کرنا، یا نماز کے کسی فرض کو اس کے اصل مقام سے پھیر دینا ہے؛ کیونکہ یہ سب باتیں نماز میں نقص پیدا کرتی ہیں، پس اس کی تلافی سجدے کے ذریعے واجب ہوتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاة، فصل بيان سبب وجوب سجود السهو، جلد  1، صفحه  164، دار الكتب العلمية، بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں: ”مسبوق امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے، اگرچہ اس کے شریک ہونے سے پہلے سہو ہوا ہو ۔“ (بہار شریعت، جلد    حصہ  4، صفحہ  715، مکتبة المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:  FAM-872

تاریخ اجراء:  9 ربيع الاول 1447ھ/3 ستمبر 2025ء