
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
سوال
غلطی سے اگر کوئی شخص بغیر وضو کے جماعت میں شامل ہوگیا اور شامل ہونے کے بعد ياد آيا کہ وضو نہیں کیا تھا۔ تو اب اس شخص کو کیا کرنا چاہئے؟ شرم کی وجہ سے اگر جماعت میں امام کے ساتھ اٹھک بیٹھک کی مگر کچھ نہ پڑھا۔ ساتھ ہی ایسا عمل بھی کیا جو نماز توڑ دیتا ہے۔ اب اس شخص کے لئے کیا حکم ہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اگر کوئی شخص بھولے سے وضو کے بغیر جماعت میں شریک ہوجائے اور نماز کے دوران اس کو یاد آئے کہ اس کا وضو نہیں ہے، تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اسی وقت نکل جائےاور جا کر وضو کرے اور پھر جماعت مل جائے توشریک ہوجائے؛ کیونکہ نماز کی بنیادی شرائط میں سے ایک شرط طہارت بھی ہے، اگر نہیں جائے گا اور یوں ہی اٹھک بیٹھک کرتا رہے گا تو نماز تو ویسے ہی نہیں ہوگی، لیکن اس صورت میں اس کی وجہ سے قطع صف بھی لازم آئے گا، اور صف قطع کرنے والے کے متعلق حدیث پاک میں وعید آئی ہے۔ لہذا اس شخص پر لازم ہے کہ فوراً جماعت سے نکل جائے، اگر چلے جانے میں شرم محسوس ہوتو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ناک پکڑے اورسرجھکائے چلاجائے، چاہے توصفوں کےآگے سے گزرکرچلا جائے یا صفوں کوچیرتا ہوا پیچھے چلا جائے، اور اس صورت میں مقتدیوں کے سامنے سے گزرنا پڑے تواس کی بھی اجازت ہے؛ کیونکہ امام کاسُترہ مقتدیوں کے لئے بھی سُترہ ہوتاہے، پھر وضوکرنے کے بعد اگر جماعت مل جائے تودوبارہ آکر جماعت میں شامل ہو جائے۔
قطع صف کرنے والے کے متعلق سنن ابو داؤد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
”اقیموا الصفوف و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل ولینوا بایدی اخوانکم ولاتذروا فرجات للشیطان و من وصل صفاً وصلہ اللہ و من قطع صفاً قطعہ اللہ“
ترجمہ: صفیں سیدھی کرو، اپنے کندھوں کے درمیان برابری رکھو، (صف کی) خالی جگہیں بند کرو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو اورجو صف کو ملائے ،اللہ اسے ملائے اور جو صف کو توڑے،اللہ اسے توڑے۔ (سنن ابی داؤد، رقم الحدیث 666، ج 1، ص 178، المكتبة العصرية، بيروت)
فتاوی رضویہ میں ہے”دربارۂ صُفوف شرعاً تین باتیں بتاکیدِ اَکید مامور بہ ہیں اورتینوں آج کل معاذ اللہ کَالْمَتْرُوْک ہو رہی ہیں، یہی باعث ہے کہ مسلمانوں میں نااتفاقی پھیلی ہوئی ہے۔ اول: تسویہ کہ صف برابر ہو، خم نہ ہو، کج نہ ہو، مقتدی آگے پیچھے نہ ہوں، سب کی گردنیں، شانے، ٹخنے آپس میں محاذی (یعنی برابر) ایک خطِ مستقیم (یعنی سیدھی لکیر) پر واقع ہوں۔۔۔ دوم: اتمام کہ جب تک ایک صف پوری نہ ہو، دوسری نہ کریں۔۔۔ سوم: تراص یعنی خوب مل کر کھڑا ہونا کہ شانہ سے شانہ (یعنی کندھے سے کندھا) چِھلے۔۔۔ اور تینوں امر شرعاً واجب ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، ج 7، ص 219 تا 223، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
دورانِ نماز وضو ٹوٹ جائے، تو اس کے متعلق سنن ابن ماجہ کی روایت ہے:
”عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: إذا صلى أحدكم فأحدث، فليمسك على أنفه، ثم لينصرف“
ترجمہ: حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کا وضو ٹوٹ جائے، تو وہ اپنی ناک پکڑ لے پھر نماز سے باہر چلا جائے۔(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث 1222، جلد 01، صفحہ 386، دار احیاء الکتب العربیۃ)
اس حدیث پاک کے تحت فیض القدیر میں ہے:
”(إذا صلى أحدكم فأحدث) فيها بمبطل خفي يلحق صاحبه بظهوره خجل (فليمسك) ندبا (على أنفه) محدودبا ظهره موهما أنه رعف (ثم لينصرف) فيتطهر سترا على نفسه من الوقيعة فيه، و ليس ذلك من الكذب القبيح بل من التورية بما هو أحسن“
ترجمہ: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کا وضو کسی خفیہ طور پر ٹوٹ جائے، جس کے ظاہر ہونے پر اسے شرمندگی محسوس ہو، تو وہ اپنی ناک پکڑ لے، (یہ عمل) مستحب ہے، اور اپنی کمر جھکا کر ایسا ظاہر کرے جیسے اسے ناک سے خون آیا ہو، پھر نماز سے نکل جائے، اور جا کر طہارت حاصل کرے، یہ عمل اس کی پردہ داری کے لیے ہے اس کام سے جس میں وہ پڑ چکا،اور یہ جھوٹ نہیں بلکہ توریہ ہے جو کہ بہتر ہے۔(فیض القدیر، جلد 01، صفحہ 391، مطبوعہ مصر)
امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے بھی سترہ ہے، چنانچہ ہدایہ میں ہے:
”و سترة الإمام سترة للقوم لأنه عليه الصلاة و السلام صلى ببطحاء مكة إلى عنزة ولم يكن للقوم سترة“
ترجمہ: اور امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے بھی سترہ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے بطحاء مکہ میں عنزہ (نیزہ نما لکڑی) کی طرف نماز پڑھی، اور مقتدیوں کے لیے الگ سترہ نہیں تھا۔(الھدایۃ، جلد 01، صفحہ 63، دار احیاء التراث العربی)
نماز کی شرائط میں سےایک شرط طہارتِ حقیقیہ اور حکمیہ کا حاصل ہونا ہے، چنانچہ بدائع الصنائع میں ہے:
”(أما) شرائط أركان الصلاة: (فمنها) الطهارة بنوعيها من الحقيقية والحكمية،والطهارة الحقيقية هي طهارة الثوب و البدن و مكان الصلاة عن النجاسة الحقيقية، و الطهارة الحكمية هي طهارة أعضاء الوضوء عن الحدث، و طهارة جميع الأعضاء الظاهرة عن الجنابة“
ترجمہ: بہر حال نماز کی شرائط میں سے ایک شرط طہارتِ حقیقیہ اور حکمیہ کا حاصل ہونا ہے، طہارت حقیقیہ یہ ہے کہ ( نمازی کے) کپڑے، بدن اور نماز کی جگہ نجاست حقیقیہ سے پاک ہو، اور طہارتِ حکمیہ سے مراد اعضائے وضو کا حدث اور تمام ظاہری اعضاء کا جنابت سے پاک ہونا ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، جلد 01، صفحہ 114، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3802
تاریخ اجراء: 08 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 06 مئی 2025 ء