
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ استخارہ خود کرنا چاہیے کسی سے نہیں کروانا چاہیے، کیا یہ درست ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
خود استخارہ کرنا چاہیے یہ بات درست ہے لیکن کسی اور سے استخارہ کروانا بھی جائز ہے، مستند مشائخ کے ہاں اس کا معمول ہے اور امت کا اس پر عمل بھی ہے، استخارہ غیب جاننے کا نام نہیں، نہ ہی اس سے کوئی یقینی و حتمی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے بلکہ استخارہ سے ظنی طور پر اپنے امور میں خیر و بھلائی کا اشارہ پانا مقصود ہوتا ہے اب وہ خواہ اپنے عمل سے ہو یا کسی اور کے عمل سے، شریعتِ مطہرہ میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے، جو کہتے ہیں کہ کسی سے استخارہ نہیں کروانا چاہیے انھیں چاہیے کہ اس پر کوئی شرعی دلیل دیں ورنہ ایسی بات اپنی طرف سے بیان نہ کریں۔
دوسرے شخص سے استخارہ کروانا:
سلیمان بن عمر المعرو ف بالعلامۃ الجمل الشافعی (المتوفی :1204ھ) حاشیۃ الجمل علی شرح المنھج میں فرماتے ہیں:
(تنبيه) ظاهر الحديث أن الإنسان لا يستخير لغيره وجعله الشيخ محمد الحطاب المالكي محل نظر فقال: هل ورد أن الإنسان يستخير لغيره؟ لم أقف في ذلك على شيء و رأيت بعض المشايخ يفعله قلت قال بعض الفضلاء: ربما يؤخذ من قوله - عليه السلام - «من استطاع منكم أن ينفع أخاه فلينفعه
ترجمہ:حدیث پاک کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ ایک انسان دوسرے کے لئے استخارہ نہ کرے،شیخ محمد حطاب المالکی علیہ الرحمہ نے اس کو قابل غور قرار دیا ہے۔ آپ نے کہا: کیا اس بارے میں کوئی نص وارد ہے کہ ایک انسان دوسرے کےلئے استخارہ کر سکتا ہے یا نہیں؟میں اس بارے میں کسی نص پر واقف نہیں ہو سکا ،البتہ میں نے بعض مشائخ کو دوسروں کےلئے استخارہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بعض فضلاء نے یہ فرمایا ہے کہ (دوسرے کےلئے استخارہ کرنے کی اصل) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان مقدس سے اخذ کی جا سکتی ہے کہ ”تم سے جو شخص اپنے بھائی کو نفع پہنچانے کی استطاعت رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ نفع پہنچائے۔“ (حاشية الجمل على شرح المنهج، جلد 1، صفحہ 492، دار الفکر، بیروت)
امام اہلسنت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں: ”جس امر سے شرع منع نہ فرمائے اصلاً ممنوع نہیں ہوسکتا قائلانِ جواز کے لئے اسی قدر کافی، جو مدعیِ ممانعت ہو دلائل شرعیہ سے اپنا دعوٰی ثابت کرے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 5، صفحہ، 654، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-4021
تاریخ اجراء: 19 محرم الحرام 1447ھ / 15 جولائی 2025ء