Fajr Aur Asar Ke Waqt Mein Sajda Tilawat Karne Ka Hukum

 

فجر اور عصر کے وقت میں سجدہ تلاوت کرنے کا حکم

مجیب:ابو تراب محمد علی عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری   

فتوی نمبر:pin-7532

تاریخ اجراء: 25جمادی الاُولیٰ1446ھ/28 نومبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ(1)فجر  اور عصر کے وقت میں سجدہ تلاوت  ادا کر سکتے ہیں؟(2)  اگر جائز ہے، تو اس کے جواز کی وجہ کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)فجر کے پورے وقت میں، یونہی عصر میں مکروہ وقت سے پہلے سجدۂ تلاوت ادا کرسکتے ہیں، البتہ مکروہ اوقات میں سجدہ تلاوت کرنے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر مکروہ وقت میں آیت سجدہ پڑھی، تو اس وقت میں بھی سجدہ کرنا ، جائز ہے ،لیکن افضل یہ ہے کہ کسی غیر ِمکروہ وقت میں ادا کرےاور اگر آیتِ سجدہ مکروہ اوقات کے علاوہ کسی وقت میں پڑھی، تو اب اس کا سجدہ اوقاتِ مکروہہ میں کرنا مکروہِ تحریمی،ناجائز و گناہ ہے۔

   نماز فجروعصر کے بعدسجدہ تلاوت کرنے کے متعلق در مختار میں ہے:” لایکرہ قضاءفائتۃولو وترااو سجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ “ ترجمہ: (فجر اور عصر کے بعد)فوت شدہ نماز پڑھنا اگرچہ وتر ہو ،سجدہ تلاوت کرنا اور نماز جنازہ اداکرنامکروہ نہیں ہے۔(درمختار، کتاب الصلوۃ، جلد02،صفحہ45،مطبوعہ کوئٹہ)

   مکروہ اوقات میں سجدہ تلاوت کے متعلق کنز الدقائق میں ہے:” ومنع عن سجدۃ التلاوۃ عند الطلوع والاستواء والغروب ملخصاً “ترجمہ : سجدہ تلاوت سے منع کیا گیا ہے سورج کے طلوع ہونے کے وقت اور استوا کے وقت اور غروب کے وقت۔(ملخصاً از کنزالدقائق ، کتاب الصلوۃ، صفحہ 22، مکتبہ ضیائیہ،راولپنڈی)

   اس کی مزید تفصیل تبیین الحقائق میں کچھ یوں ہے:’’والمراد بسجدۃ التلاوۃ ما تلاھا قبل ھذہ الاوقات، لانھا وجبت کاملۃ فلا تتادی بالناقص واما اذا تلا ھا فیھا جاز اداؤھا  فیھا من غیر کراھۃ،لکن الافضل تاخیرھا لیؤدیھا فی الوقت المستحب‘‘ ترجمہ: یہاں سجدہ تلاوت سے مراد یہ ہے کہ جس کو ان مکروہ اوقات سے پہلے پڑھا ہوتو سجدہ تلاوت منع ہے ،کیونکہ سجدہ تلاوت کامل طور پر واجب ہوا ہے تو ناقص طور پر ادا نہیں ہوسکتااور بہرحال جب آیت سجدہ ان اوقات میں پڑھی تو اس کاسجدہ ان اوقات میں کرنا بلا کراہت جائز ہے،لیکن افضل سجدہ تلاوت کو مؤخر کرنا ہے تاکہ وقت مستحب میں اس کو ادا کیا جائے۔(تبیین الحقائق، کتاب الصلوۃ، ج1،ص229،مطبوعہ لاھور)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں:”ان اوقات میں آیت سجدہ پڑھی تو بہتر یہ ہے کہ سجدہ میں تاخیر کرے،یہاں تک کہ وقت کراہت جاتا رہے اور اگر وقت مکروہ ہی میں کرلیا تو بھی جائز ہے اور اگر وقت غیر مکروہ میں پڑھی تھی تو وقت مکروہ میں سجدہ کرنا مکروہ تحریمی ہے ۔“(بھار شریعت،جلد 1،صفحہ 454، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   (2) مذکورہ دو اوقات میں سجدہ تلاوت جائز ہونے کی اجمالی وجہ یہ ہے کہ ان اوقات میں فرض اور واجب لعینہٖ(جو فرض کے حکم میں ہوتا ہے) ادا کر سکتے ہیں،نفل اور واجب لغیرہٖ (جو نفل کے حکم میں ہے) ادا نہیں کر سکتے اور سجدہٴ تلاوت واجب لعینہٖ ہے۔

   تفصیل اس کی  یہ ہے کہ واجب کی دو قسمیں ہیں: (1)  واجب لعینہٖ: جو اللہ عزوجل کے لازم کرنے سے واجب ہوا، بندے کا اس میں کوئی دخل نہ ہو اور یہ فرض کے حکم میں  ہوتا ہے۔ جیسے وتر، نمازِ جنازہ ۔اور (2) واجب لغیرہٖ: وہ کام جو فی نفسہٖ نفل تھا، لیکن بندے نے خود اپنے اوپر واجب کر لیا اور یہ نفل کے حکم میں ہے،  جیسے منت اور طواف کے نوافل وغیرہ۔ اور سجدہ تلاوت پر غور کیا جائے، تو بظاہر  یہ آیت سجدہ پڑھنے سننے سے واجب ہوتا ہے، لیکن در حقیقت یہ نفلی کام ہے ہی نہیں کہ جسے بندے نے اپنے اوپر واجب کیا ہو، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے واجب کرنے سے ہی واجب ہوا، تو یہ  واجب لعینہٖ ہے ، لہٰذا   ان اوقات میں ادا کرنا بھی جائز ہے۔

   واجب لعینہٖ و لغیرہٖ کے متعلق حاشیہ طحطاوی میں ہے: ’’ويكره التنفل بعد طلوع الفجراي قصدا،۔۔۔ ومثل النافلة في هذا الحكم ما وجب بايجاب العبد ويقال له الواجب لغيره كالمنذور وركعتي الطواف وقضاء نفل افسده، اما الواجب لعينه وهو ما كان بايجاب الله تعالى ولا مدخل للعبد فيه ۔۔۔ فلا كراهة فيه ‘‘ ترجمہ:طلوعِ فجر کے بعد قصداً نوافل شروع کرنا مکروہ ہے اور اس حکم میں وہ واجب بھی نفل کی مثل ہے جو بندے کے ایجاب سے واجب ہوا ہو اور اسے واجب لغیرہ کہتے ہیں، جیسے منت، طواف کی دو رکعات اور نفل کی قضا، جسے فاسد کر دیا تھا، بہرحال واجب لعینہ جسے اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہو، اس میں بندے کا دخل نہ ہو، اس کی ادائیگی میں کوئی کراہت نہیں۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 188، مطبوعہ بیروت)

   در مختار میں ہے: ’’وکرہ نفل وکل ما کان واجباً لغیرہ کمنذور ورکعتی طواف وسجدتی سھو والذی شرع فیہ ثم افسد بعد صلاۃ فجر وعصر، لا قضاء فائتۃ وسجدۃ تلاوۃ وصلاۃ جنازۃ، وکذا) الحکم من کراھۃ نفل و واجب لغیرہ لا فرض وواجب لعینہ‘‘ترجمہ: فجر و عصر کے بعد (قصداً) نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے، یونہی ہر واجب لغیرہ کہ جس کا وجوب بندہ کے فعل پر موقوف ہو، جیسے منت، طواف کی رکعات اور سجدہ سہو اور ایسی نفل نماز جسے شروع کر کے فاسد کر دیا ہو، (لیکن ان اوقات میں) فوت شدہ نمازوں کی قضا اورسجدہ تلاوت اور نماز جنازہ مکروہ نہیں کراہت کا یہ حکم نوافل اور واجب لغیرہ میں ہے، نہ کہ فرض اور واجب لعینہ میں۔

   نفلی کام جسے بندہ واجب کرے، وہ واجب لغیرہ ہے، چنانچہ مذکورہ عبارت کے تحت علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’(وکل ما کان واجباًلغیرہ) ای: ما کان ملحقاً بالنفل، بان ثبت وجوبہ بعارض بعد ما کان نفلاً۔۔۔الخ‘‘ ترجمہ: ہر وہ واجب جس جو ملحق بالنفل ہو، بایں طور کہ اس کا وجوب کسی عارض کی بناء پر ہو بعد اس کے کہ وہ نفل تھا۔۔الخ ۔(ملتقطاً ازدر مختار و رد المحتار، کتاب الصلوۃ، جلد 2، صفحہ 44، مطبوعہ پشاور)

   سجدہ تلاوت کے واجب لعینہ ہونے کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’وان کان بفعلہ، لکنہ لیس اصلہ نفلاً، لان التنفل بالسجدۃ غیر مشروع، فکانت واجبۃ بایجاب اللہ تعالی لا بالتزام العبد ‘‘ترجمہ: (سجدہ تلاوت) یہ اگرچہ اپنے فعل (یعنی آیت سجدہ پڑھنے) کی وجہ سے واجب ہوا، لیکن یہ فی نفسہ نفل نہیں تھا، کیونکہ نفلی سجدہ مشروع نہیں ہے، تو گویا یہ فی نفسہٖ اللہ تعالیٰ کے واجب کرنے سے ہی واجب ہوا ہے، بندے کے لازم کرنے سے نہیں۔(در مختار، کتاب الصلوۃ، جلد 2، صفحہ 44، مطبوعہ پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم