
مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3504
تاریخ اجراء:12رجب المرجب1446ھ/13جنوری 2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
فجر کے بعدذکرو اذکار پڑھنے چاہییں یا پھر سورہ یٰسین؟ رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
احادیث مبارکہ میں نماز فجر کے بعد مطلقاً ذکر و اذکار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، جس میں دعا، تلاوت، علمی تکرار، نیکوں کاتذکروہ وغیرہ سب شامل ہے، بالخصوص سورۃ یسین کی اس وقت میں تلاوت کرنے کی خاص فضیلت بھی آئی ہے کہ" جوشخص صبح سورہ یسین کی تلاوت کرتا ہے تو اس کی حاجات پوری ہوتی ہیں۔ "لہذا ممکنہ صورت میں دونوں ہی کام کیے جائیں، دونوں ہی باعث ِ فضیلت و برکت ہیں، اور اگر کوئی ایک کام کیا جائےیعنی سورۃ یسین پڑھ لی جائے یا پھر دیگر ذکر و اذکار کر لیے جائیں تو اس میں بھی حرج نہیں، اور اگر کسی ایک کام کا معمول بنا لیا جائے، تو بھی حرج نہیں جبکہ اس کو واجب و ضروری نہ سمجھے۔
سنن ترمذی شریف میں ہے :”عن أنس قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم :”من صلى الغداة في جماعة ثم قعد يذكر اللہ حتى تطلع الشمس، ثم صلى ركعتين كانت له كأجر حجة وعمرة، قال: قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: «تامة تامة تامة“ ترجمہ: حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے نمازِ فجر باجماعت پڑھی ،پھر وہیں بیٹھ کر آفتاب طلوع ہونے تک ذکر الٰہی کرتا رہا، پھر اس نے دو رکعت نماز پڑھی تو اس کے لیے یہ نماز ایک حج و عمرہ کے اجر کی طرح ہوگی، حضرت انس کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ نماز بالکل کامل و تام حج و عمرہ کے برابر ہے۔(سنن الترمذی، ج02، ص481، مطبعۃ مصطفی البابی)
سنن ابو داؤدمیں ہے”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: لأن أقعد مع قوم يذكرون اللہ من صلاة الغداة حتى تطلع الشمس أحب إلي من أن أعتق أربعة من ولد إسماعيل“ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرا اس قوم کے ساتھ بیٹھنا جو نمازِ فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک ذکر الٰہی کرتی ہے مجھے اولاد اسماعیل کے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔(سنن ابی داؤد،ج5،ص 508،دار الرسالۃ العالمیہ)
اس کےتحت مرقاۃ میں ہے ”(يذكرون اللہ) وهو يعم الدعاء والتلاوة ومذاكرة العلم وذكر الصالحين ۔۔ ولعل ذكر أربعة لأن المفضل مجموع أربعة أشياء: ذكر اللہ، والقعود له، والاجتماع عليه، والاستمرار به إلى الطلوع“ ترجمہ: ایسی قوم جو اللہ کا ذکر کرتی ہے، ذکر سے مراد عام ہے، جیسے دعا، تلاوت قرآن، علمی مذاکرہ اور صالحین کا ذکر اور شاید چار غلاموں کی آزادی کا ذکر اس لیے کیا کیونکہ باعث فضیلت چیز کا مجموعہ چار چیزیں ہیں، ذکرالٰہی، اس کے لیے بیٹھنا ،جمع ہونا اور طلوع تک اس پر استمرار۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ج02، ص770، دار الفکر، بیروت)
سنن دارمی ميں ہے ”عن عطاء بن أبي رباح، قال: بلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من قرأ يس في صدر النهار، قضيت حوائجه“ ترجمہ : عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”جو شخص دن کے پہلے حصے (صبح )میں سورۂ یٰسین پڑھتا ہے تو اس کی تمام ضروریات پوری کر دی جاتی ہیں۔(سنن دارمی ،فضائل القرآن،باب: في فضل يس، جلد 04، صفحہ 2150، مطبوعہ دار المغني)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم