
مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3736
تاریخ اجراء: 13شوال المکرم 1446 ھ/ 12 اپریل 2025 ء
دار الافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا قضا نماز فرض نماز کے ساتھ پڑھی جا سکتی ہے؟ مثلاً فجر کی فرض نماز کے ساتھ قضا شدہ فرض نماز بھی پڑھ لیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
فرض نماز کے ساتھ قضا نماز پڑھنا جائز ہے، یونہی فجر کی فرض نماز کے ساتھ بھی قضا نماز پڑھنا جائز ہے، البتہ لوگوں کے سامنے قضا نماز نہ پڑھی جائے کہ اس سے لوگوں پرقضانمازکااظہارہوجائے گا، اور چونکہ نماز کا قضا کرنا گناہ ہے تویہ لوگوں پر بلا ضرورت گناہ کا اظہار کرنا ہوگا جوکہ جائز نہیں ہے۔
اوریہ بات یادرہے کہ تین اوقاتِ مکروہہ ( یعنی سورج طلوع ہونے سے لے کر تقریباً 20 منٹ بعد تک، سورج غروب ہونے کے وقت سے تقریباً 20 منٹ پہلے کا دورانیہ اور ضحوۂ کبری یعنی نصف النہارِ شرعی سے لے کر سورج ڈھلنے تک، جسے عوام زوال کے نام سے جانتی ہے، ان) میں قضا نمازیں ادا کرنا، جائز نہیں۔ یونہی عین خطبہ کے وقت بھی قضا نماز پڑھنا جائز نہیں، (خطبہ خواہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا یا ان کے علاوہ)، مگر صاحبِ ترتیب (جس کی کبھی چھ نمازیں قضا نہیں ہوئیں یاتو ایک بھی قضانہیں ہوئی یاچھ سے کم ہوئی ہیں، اور اگر چھ یازیادہ قضاہوئی تھیں تواس نے سب اداکرلیں تواس )کے لئے خطبہ جمعہ کے وقت قضا نماز پڑھنے کی اجازت ہے، نیز فرض نماز کا وقت تنگ ہو، تو بھی قضاء نماز منع ہے، حتی کہ تنگی وقت کے سبب صاحبِ ترتیب سے اُس وقتی نماز اور قضا کے درمیان ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے
”اما شرائط جواز القضاء فجمیع ما ذکرنا انہ شرط جواز الاداء فھو شرط جواز القضاء الا الوقت فانہ لیس للقضاء وقت معین بل جمیع الاوقات وقت لہ الا ثلاثۃ، وقت طلوع الشمس و وقت الزوال و وقت الغروب فانہ لا یجوز القضاء فی ھذہ الاوقات“
ترجمہ: قضا نماز کو ادا کرنے کی تمام شرائط وہی ہیں جو ادا کی شرائط ہیں سوائے وقت کے، کہ قضا کے لیے کوئی وقت معین نہیں ،بلکہ تمام اوقات میں قضا نماز جائز ہے، سوائے تین اوقات یعنی سورج طلوع، غروب ہونے اور وقتِ زوال کے، کہ ان اوقات میں قضا نماز پڑھنا جائز نہیں۔ (بدائع الصنائع، ج 1، ص 246، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
خطبے کے وقت قضاء نماز پڑھنے کے متعلق فتح باب العنایہ میں ہے:
’’(تکرہ) ای الصلاۃ و سجدۃ التلاوۃ و صلاۃ الجنازۃ الا الفائتۃ لصاحب الترتیب (اذا خرج) ای صعد (الامام) المنبر (للخطبۃ) ای خطبۃ الجمعۃ او العیدین او الحج او الکسوف او الاستسقاء‘‘
ترجمہ: جب امام خطبے کے لئے منبر پہ آ جائے، تو نماز، سجدہ تلاوت اور نمازِ جنازہ ادا کرنا مکروہ ہے، مگر صاحبِ ترتیب کے لئے فوت شدہ نماز پڑھنا مکروہ نہیں، خطبہ جمعہ کا ہو یا عیدین کا یا پھر حج، نمازِ کسوف یا نمازِ استسقاء کا ہو۔“(فتح باب العنایہ شرح نقایہ،کتاب الصلاۃ، ج 1،ص 192،مطبوعہ کراچی)
تنگی وقت کے متعلق در مختار اور رد المحتار میں ہے
”(يكره غير المكتوبة عند ضيق الوقت) اي المكتوبة الوقتية، فشملت الكراهة النفل و الواجب و الفائتة و لو كان بينها و بين الوقتية ترتيب، ملتقطاً‘‘
ترجمہ: وقت میں تنگی ہو تو غیر فرض کی ادائیگی مکروہ ہے، یہاں فرض سے مراد وقتی فرض نماز ہے، اور یہ کراہت نفل، واجب، قضاء کو بھی شامل ہے، اگرچہ قضاء اور وقتی فرض کے درمیان ترتیب والا معاملہ ہو۔“ (در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 378، مطبوعہ بیروت)
شرح مختصر الطحاوی للجصاص میں ترتیب سے متعلق ہے
”كان أبو حنيفة يوجب الترتيب في الفوائت ما لم تكن الفوائت ستا، فإذا صارت ستا: سقط الترتيب“
ترجمہ: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فوت شدہ نمازوں میں ترتیب واجب قرار دیتے ہیں جبکہ فوت شدہ نمازیں چھ نہ ہوں، اور جب چھ ہو جائیں تو ترتیب ساقط ہو جاتی ہے۔ (شرح مختصر الطحاوی، ج 1، ص 703، دار البشائر الإسلامية)
تنویر الابصار و در مختار میں ہے:
”(و لا یعود) لزوم الترتیب (بعد سقوطہ بکثرتھا) أی الفوائت (بعود الفوائت الی القلۃ) بسبب (القضاء) لبعضھا علی المعتمد، لأن الساقط لا یعود“
ترجمہ: اور قضاء نمازوں کی کثرت کی وجہ سے ساقط ہوجانے والی ترتیب کا لزوم عود نہیں کرے گا، جب بعض قضاء نمازیں پڑھنے کے سبب قضاء نمازیں کم ہوجائیں، یہی معتمد قول ہے کیونکہ ساقط ہوجانے والی چیز عود نہیں کرتی۔
اس کے تحت رد المحتار میں ہے
"و أما اذا قضی الکل فالظاھر أنہ یلزمہ ترتیب جدید"
ترجمہ: اور بہرحال جب ساری قضاء نمازیں پڑھ لے تو ظاہر یہ ہے کہ اس پر نئی ترتیب لازم ہوجائے گی۔ (رد المحتار مع الدر المختار، ج 02، ص 640، مطبوعہ: کوئٹہ)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم