
مجیب:ابو شاھد مولانا محمد ماجد علی مدنی
فتوی نمبر:WAT-3593
تاریخ اجراء:25شعبان المعظم 1446ھ/24فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
ایک شخص نے نماز عشاء کے فرض با جماعت ادا کر لئےہیں تو کیا وہ شخص نفل کی نیت سے ایسے شخص کی اقتداء کر سکتا ہے جس نےنماز عشاء کے فرض ادا نہیں کئے ؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
بیان کردہ صورت میں شرعا اقتداء کرنا جائز ہے کیونکہ عشاء کے بعد نوافل ادا کرنا جائز ہیں ۔البتہ فجر ،عصر اور مغرب میں فرض ادا کر لینے کے بعد کسی کی اقتداء میں نفل ادا نہیں کر سکتے کیونکہ فجر اور عصرکے فرض ادا کر لینے کے بعد نوافل پڑھنا درست نہیں ۔اور مغرب کی صورت میں تین نوافل اداکرنالازم آئے گااورچاررکعات اداکرنے میں امام کی مخالفت ہوگی جو کہ شرعا ممنوع ہے ۔لہذا فجر ،عصر اور مغرب کےعلاوہ میں فرض ادا کر لینے کے بعد کسی فرض نماز والے کی اقتداء میں نفل نماز ادا کرنا جائز ہے۔
نہر الفائق میں ہے"ولذا قيد بالظهر والعشاء لأنه يكره في غيرهما لكراهة التنفل بعد الفجر والعصر ولزوم أحد المحذورين السابقين لو اقتدى في المغرب"ترجمہ: اسی وجہ سے ظہر اور عشاء کی قید لگائی کہ ان کے علاوہ نمازوں میں اپنی نمازپڑھ لینے کے بعدجماعت میں شامل ہونامکروہ ہے کہ فجر و عصر کے بعد نفل مکروہ ہے اور مغرب میں اگر وہ اقتدا کرے تو سابقہ دو ممنوع کاموں میں سے ایک لازم آئے گا۔ (النهر الفائق شرح كنز الدقائق ،ج01، ص310،دار الکتب العلمیۃ)
رد المحتار میں ہے”ولا يقتدي لكراهة التنفل بعد الفجر، وبالثلاث في المغرب، وفي جعلها أربعا مخالفة لإمامه" ترجمہ : فجرکی نمازپڑھ لینے کے بعدامام کی اقتداء نہ کرے کہ فجر کے بعد نفل مکروہ ہیں ، یونہی مغرب کی نماز پڑھ لینے کے بعد بھی امام کی اقتداء نہیں کرے گاکہ اس صورت میں تین نوافل اداکرنالازم آئے گااورچار رکعات اداکرنے میں امام کی مخالفت ہوگی۔ (رد المحتار ،کتاب الصلاۃ، ج 2، ص 52، دار الفکر،بیروت)
امام اہلسنت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ ایک شخص فرض تنہا پڑھ چکا تھا اب مسجد میں جماعت قائم ہوئی اور یہ اس وقت مسجد میں موجود ہے تو اب اسے کیا حکم ہے؟
اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا:”ظہر و عشاء میں ضرور شریک ہو جائے کہ اگر تکبیر سن کر باہر چلاگیا یا وہیں بیٹھا رہا تو دونوں صورت میں مبتلائے کراہت وتہمت ترک جماعت ہوا اور فجر و عصر و مغرب میں شریک نہ ہو کہ قول جمہور پر تین رکعت نفل نہیں ہوتے اور چوتھی ملائے گا تو بسبب مخالفت امام کراہت لازم آئے گی اور فجر وعصر کے بعد تو نوافل مکروہ ہی ہیں اور ویسے بیٹھا رہے گا تو کراہت اور اشد ہوگی لہٰذا ان نمازوں میں ضرور ہوا کہ باہر چلاجائے۔“(فتاوی رضویہ،ج08، ص137، رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم