
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-627
تاریخ اجراء:29جمادی الاخری1446ھ/01جنوری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کسی فرض یا نفل نماز میں ہمیشہ کوئی خاص سورتیں پڑھنے کا کیا حکم ہے؟جیسے کسی فرض یا نفل نماز میں ہمیشہ سورہ اخلاص اور سورہ فلق کی تلاوت کرنا، اس کے علاوہ کوئی دوسری سورت نہ پڑھنا۔ نیز کیا امام و منفرد میں سے ہر ایک ایسا کرسکتا ہےیا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نماز میں ہمیشہ مخصوص آیات کا التزام کرنے کی چند صورتیں ہیں:
(۱) اگر نمازی محض اپنی آسانی کے لیے یا نمازی کو وہی سورتیں یاد ہوں، یا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت سے برکت حاصل کرنے کے لیے نماز میں معین سورتوں کی تلاوت کرے ،تو کراہت نہیں ہوگی۔
(۲) امام کے لیے جہری نمازوں میں معینہ سورتوں کی قراءت بہرحال مکروہ ہے، ہاں اگر امام کبھی کبھار دوسری سورتوں کی تلاوت بھی کرلیا کرے، تو اب امام کے لیے جہری نماز وں میں بھی سورت کی تعیین میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
(۳)اگر امام یا منفرد فرض یا سنت یا نفل کسی بھی نماز میں قرآن پاک کی کسی معین سورت کی تلاوت کو لازم و ضروری سمجھ کر پڑھے، تو مکروہ تحریمی ناجائز و گناہ ہے، لیکن یہ صورت بہت قلیل و نادر ہے۔
چنانچہ حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:’’(ویکرہ التعیین)لما فیہ من هجر الباقي وايهام التفضيل والكل من حيث انه كلام الله واحد،والظاهر انها كراهة تحريمية لاطلاقها و محلها اذا كان حافظاً غير ماعينه،أما اذا کان لایحفظ الاما عین أو کان أسھل علیہ من غیرہ أو قرأہ للتبرک بقراءتہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا کراھۃ، وکراھۃ التعیین للامام والمنفرد فی الفرض و غیرہ کما فی البحر‘‘ ترجمہ: اور تعیین مکروہ ہے، کیونکہ اس میں قرآن کو چھوڑنا اور فضیلت کا وہم دلانا ہے، حالانکہ سب کا سب اس اعتبار سے کہ وہ اللہ کا کلام ہے، ایک ہی چیز ہے۔ اور ظاہر یہ ہے کہ کراہت تحریمی ہے، اس کے مطلق ہونے کی وجہ سے اور اس کا محل تو وہ یہ ہے کہ جب نمازی کومعین کی جانے والی سورت کے علاوہ بھی کچھ یاد ہو، بہرحال جب اسے معینہ سورت ہی یادہو، یا وہ اس پر دوسری سورتوں کے مقابلے میں آسان ہو یا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کی تلاوت کرے ،تو کوئی کراہت نہیں، اور تعیین کی کراہت امام اور منفرد(دونوں کے لیے ہے)اور فرض اور اس کے علاوہ نمازوں میں ہے، جیسا کہ بحر الرائق میں ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد2، صفحہ298، دار الکتب العلمیہ،بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم