
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ جماعت کے لئے جو تکبیر پڑھی جاتی ہے، مؤذن کسی اور سے پڑھوا سکتا ہے؟
(سائل: قاری ماہنامہ فیضان مدینہ)
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
جو اذان دے اقامت کہنے کا حق بھی اسی کا ہے۔اگر مؤذن موجود ہو تو اس کی اجازت کے بغیر دوسرے کا اقامت کہنا مکروہ ہے جبکہ مؤذن کو ناگوار گزرتا ہواوروہ اپنے خوشی سے کسی اور کو اقامت کہنے کی اجازت دے تودوسرا شخص بھی اقامت کہہ سکتا ہےشرعاً اس میں کچھ حرج نہیں۔
اگر جماعت کا وقت ہو گیا اور مؤذن وہاں موجود نہ ہو تواس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی شخص اقامت کہہ سکتا ہے البتہ بہتر ہے کہ امام اقامت کہے۔
صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی بہارِ شریعت میں ارشاد فرماتے ہیں: ”جس نے اذان کہی اگر موجود نہیں تو جو چاہے اقامت کہہ لے اور بہتر امام ہے اور مؤذن موجود ہے تو اس کی اجازت سے دوسرا کہہ سکتا ہے کہ یہ اسی کا حق ہےاور اگر بے اجازت کہی اور مؤذن کو ناگوار ہو تو مکروہ ہے۔“ (بہار شریعت، 1/ 470)
بدائع الصنائع میں ہے:
اِنَّ مَنْ اَذَّنَ فَھُوَ الَّذِیْ یُقِیْمُ وَ اِنْ اَقَامَ غَیْرُہ فَاِنْ کَانَ یَتَأَذَّی بِذٰلِکَ یُکْرَہُ لِاَن اِکْتِسَابَ اَذَی الْمُسْلِمِ مَکْرُوْہٌ وَ اِنْ کَانَ لَا یَتَأَذَّی بِہٖ لَا یُکْرَہ۔
یعنی جس نے اذان دی وہی اقامت کہے گا اگر کسی اور نے اقامت کہی اور مؤذن کو ناپسند گزرا تو مکروہ ہے کیونکہ مسلمان کو اذیت دینا مکروہ ہےاور اگر مؤذن کو برا نہ لگا تو مکروہ نہیں ہے۔ (بدائع الصنائع، 1/375)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
مصدق: مفتی فضیل رضا عطاری
تاریخ اجراء: ماہنامہ فیضان مدینہ اکتوبر 2017ء