
مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3569
تاریخ اجراء:16شعبان المعظم1446ھ/15فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
اگر کسی نے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھ کر آیت سجدہ پڑھی اوراس پر سجدہ واجب ہوگیا، اب اس نے دوسرے کمرے میں بیٹھ کرپھروہی آیت سجدہ پڑھی، تو کیا اس پردوسرا سجدہ واجب ہوگا؟ اسی طرح اگر کسی بالغ طالب علم نے چھوٹے مدرسے یاچھوٹی مسجدمیں ایک مرتبہ اپنی جگہ پر بیٹھ کر آیت سجدہ پڑھی اور دوسری مرتبہ قریب ہی جاکراپنے استاد صاحب کو سبق سناتے وقت وہی آیت سجدہ پڑھی، تو اب اس طالب علم پر ایک سجدہ واجب ہوگا یا دو؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اگر کسی شخص نے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھ کر آیتِ سجدہ پڑھی، پھر وہی آیت دوسرے کمرے میں بیٹھ کر ایک یا کئی بار پڑھی، تو اس پر صرف ایک سجدہ واجب ہوگا، کیونکہ ایک ہی گھر کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے سے مجلس نہیں بدلے گی(جبکہ مکان بڑا نہ ہو جیسے شاہی محل، اگرایساہواتووہاں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں جانے سے مجلس بدل جائے گی اوردوسری مرتبہ وہی آیت پڑھنے سے دوسراسجدہ لاز ہوگا)۔ البتہ! دو یا اس سے زیادہ مختلف آیاتِ سجدہ تلاوت کیں، تو اب اس صورت میں ایک سجدہ کافی نہیں ہوگا ،بلکہ ہر بار کے لیے الگ الگ سجدہ کرنا واجب ہوگا۔
اسی طرح اگر بالغ طالب علم نے چھوٹے مدرسے یاچھوٹی مسجدمیں ایک مرتبہ اپنی جگہ پر بیٹھ کر آیت سجدہ پڑھی اور دوسری مرتبہ قریب ہی جاکراپنے استاد صاحب کو سبق سناتے وقت وہی آیت سجدہ پڑھی، تو اس پرایک ہی سجدہ لازم ہو گا۔ ہاں! اگر سجدے کی مختلف آیتیں پڑھیں، تو ہر آیت کے بدلے میں الگ سجدہ لازم ہو گا۔
نوٹ: نابالغ بچہ اگر آیتِ سجدہ تِلاوت کرے یا سُنے، تو اس پر سجدۂ تلاوت واجب نہیں ہوگا، البتہ اگر نابالغ نے تلاوت کی اور عاقِل بالغ مسلمان نے اس سے آیتِ سجدہ کی تلاوت سُنی، تو سُننے والے پر سجدۂ تلاوت واجب ہوجائے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے ”و المجلس واحد و إن طال أو أكل لقمة أو شرب شربة أو قام أو مشى خطوة أو خطوتين أو انتقل من زاوية البيت أو المسجد إلى زاوية إلا إذا كانت الدار كبيرة كدار السلطان۔“ ترجمہ: مجلس ایک ہی شمار ہوگی اگرچہ طویل ہو جائے یا ایک لقمہ کھا لیا یا ایک گھونٹ پانی پی لیا یا کھڑا ہوگیا یا ایک دو قدم چل لئے یا گھر یا مسجد کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے کی طرف منتقل ہوا،مگر یہ کہ گھر بڑا ہو جیسا شاہی محل ہوتا ہے۔(فتاوی ہندیہ، ج 1، ص 134، دار الفکر، بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے ”والأصل في وجوب السجدة أن كل من كان من أهل وجوب الصلاة إما أداء أو قضاء كان أهلا لوجوب سجدة التلاوة ومن لا فلا، كذا في الخلاصة حتى لو كان التالي كافرا أو مجنونا أو صبيا أو حائضا أو نفساء۔۔۔ لم يلزمهم وكذا السامع، كذا في الزاهدي ولو سمع منهم مسلم عاقل بالغ تجب عليه لسماعه“ ترجمہ: سجدہ تلاوت کے وجوب میں اصل یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو ادا یا قضانماز کے وجوب کا اہل ہو، تو وہ سجدہ تلاوت کے وجوب کا بھی اہل ہوگا اور جو وجوبِ نماز کا اہل نہیں وہ سجدہ تلاوت کے وجوب کا بھی اہل نہیں ہوگا، یونہی خلاصہ میں ہے، حتی کہ آیتِ سجدہ کافر یا مجنون یا بچے یا حیض و نفاس والی عورت نے پڑھی تو ان پر سجدہ واجب نہیں ہوگا، یونہی زاہدی میں ہے اور ان سے کسی مسلمان عاقل بالغ نے سنی تو سماعت کی وجہ سے اس پر سجدہ تلاوت واجب ہوگا۔(فتاوی ہندیہ، ج 1، ص 132، دار الفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم