گنہگار غیر فاسقِ معلن کی امامت کا حکم

گناہ گار غیر فاسق معلن کے پیچھے نماز کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک مرتبہ مسجد میں امام نہ ہونے کے سبب ایک شخص کو امامت کے لئے آگے کیا گیا ، وہ شخص بظاہر فاسق نہیں تھا، لیکن وہ گناہ گار ضرور تھااور یہ بات صرف وہ خود ہی جانتا تھا، کسی دوسرے کے علم میں نہیں تھی اور نہ ہی اس نے ظاہر کی کیونکہ گناہ کا اظہار بھی گناہ ہے، اس شخص نے نماز پڑھادی، اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نماز ہو گئی یا دوبارہ پڑھنی ہوگی؟ اس حوالے شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

صورت مسئولہ میں اگروہ شخص کسی کبیرہ گناہ کا خفیہ طورپرمرتکب ہوا یا صغیرہ پر خفیہ طور پر اصرار کیا تو ایسی صورت میں وہ فاسق غیر معلن ہوا، اور فاسق غیر معلن (یعنی وہ جوگناہ چھُپ کر کرتا ہو،گناہ میں معروف و مشہور نہ ہو) کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی (یعنی خلاف اولیٰ) ہے۔ لہذا اگر اس وقت اس شخص میں امامت کی شرائط موجود تھیں اور اس نے نماز کو اس کی شرائط و ضروریات کے مطابق درست پڑھا یا تو وہ نمازدرست ہوگئی البتہ! مکروہ تنزیہی ہوئی۔

فاسقِ معلن اور فاسقِ غیر معلن کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق ،سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ”فاسق وہ کہ کسی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور وہی فاجر ہے اور کبھی فاجر خاص زانی کو کہتے ہیں، فاسق کے پیچھے نماز مکروہ ہے، پھر اگر معلن نہ ہو یعنی وہ گناہ چھُپ کر کرتا ہو معروف و مشہور نہ ہو، تو کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ، اگر فاسق معلن ہے کہ علانیہ کبیرہ کا ارتکاب یاصغیرہ پر اصرار کرتا ہے، تو اُسے امام بنانا، گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی کہ پڑھنی گناہ اور پڑھ لی ہو، تو پھیرنی واجب۔( فتاوی رضویہ، جلد 6، صفحہ 601، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4063

تاریخ اجراء: 02 صفر المظفر 1447ھ/ 28 جولائی 2025ء