
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:HAB-0516
تاریخ اجراء:19 شعبان المعظم 1446 ھ/ 18 فروری 2025 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ بعض اما م صاحبان تکبیرِ انتقال رکوع یا سجدے کے لیے آدھا جھک جانے کے بعد اور کبھی تو رکوع اور سجدے میں پہنچنے کے بعد کہتے ہیں اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے مقتدی امام سے پہلے رکن کی طرف نہیں جا پاتے، اگر ہم ساتھ ساتھ تکبیر کہیں تو کئی مرتبہ مقتدی ہم سے پہلے رکن میں چلے جاتے ہیں۔
کیا امام صاحبان کا ایسا کہنا صحیح ہے؟ اگر نہیں تو ایسی صورتحال میں اگر ہمارے سامنے امام کے انتقالات واضح ہوں مثلا ً ہم پہلی صف میں نماز ادا کر رہے ہیں اور امام کو رکوع و سجود میں آتا جاتا دیکھ رہے ہیں تو امام کو دیکھ کر ہم بھی دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوسکتے ہیں یا امام کے تکبیر کہنے کے بعد ہی دوسرے رکن کی طرف انتقال ضروری ہے؟ برائے مہربانی اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمادیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
امام کےلیے بھی تکبیرِ انتقال کی ادائیگی میں سنت یہی ہے کہ جیسے ہی رکن کی طرف انتقال شروع کرے، تکبیر کہنا بھی شروع کرے اور جیسے ہی انتقال ختم ہو، تکبیر کا بھی اختتام کرلے ، یعنی انتقال اور تکبیر ِانتقال کی ابتدا اور انتہا ساتھ ساتھ ہو، اس کے خلاف امام کا رکن کی طرف آدھے جھک جانے کے بعد یا دوسرے رکن میں مکمل انتقال کے بعد تکبیر کہنا سنت کی خلاف ورزی ہے، اگر چہ مقتدیوں کے ارکان میں امام سے آگے بڑھ جانے کے خوف کی وجہ سے ہو، کیونکہ اگر کوئی مقتدی امام سے آگے بڑھتا ہے تو اس کا وبال اس پر ہے، امام پر اس کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
بہرحال اگر امام سنت کے خلاف تاخیر سے تکبیر کہے تو مقتدی امام کے افعال دیکھ کر اس کی اتباع میں سنت کے موافق تکبیر کہتا ہوا انتقال کرے، اگر چہ امام نے ابھی تکبیر کہنا شروع نہ کی ہو۔
تفصیل و دلائل بالترتیب درج ذیل ہیں:
تکبیرِ انتقال کی ادائیگی میں سنت یہ ہے کہ ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف انتقال شروع کرتے ہی تکبیر بھی شروع اور انتقال کے اختتام کے ساتھ تکبیر بھی مکمل کرلی جائے۔ ہندیہ میں ہے: ’’فيكون ابتداء تكبيره عند أول الخرور و الفراغ عند الاستواء للركوع کذا في المحیط‘‘ ترجمہ: تو تکبیرِ انتقال کی ابتدا جھکتے ساتھ ہی اور تکبیر کااختتام رکوع میں کمر سیدھی ہوتے ہی کردے، اسی طرح محیط میں ہے۔ (الفتاوی الھندیة، ج 1، ص 74، دار الفکر، بیروت)
حاشیۃ الطحطاوی میں ہے: ’’و إن خالف ترك السنة‘‘ ترجمہ: اگر اس کی مخالفت کرتا ہے تو سنت ترک کرتا ہے۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح، ص 351، دار الكتب العلمية بيروت)
امام کےلیے بھی مذکورہ طریقے پر ہی تکبیرِ انتقال کہنا سنت ہے۔ شیخ الاسلام امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’اسے (یعنی امام کو) چاہیے کہ سجدہ کو جاتے یا سجدہ سے اٹھتے وقت اللہ اکبر کی ابتدا کرے اور ختم، انتقال پر ختم کرے مقتدیوں کی رعایت جو وہ کرتا ہے عکسِ مقصود شرع ہے،حدیث میں فرمایا:انما جعل الامام لیوتم بہ (امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اتباع کی جائے) یہ بات کہ ایسا نہ کرے تو مقتدی اس سے پہلے سجدہ کرلیں گے اس کا لحاظ مقتدیوں پر ضرور ہے جب اسے سجدہ تک پہنچنے میں دیر ہوتی ہو تو یہ انتظار کریں اور ایسےوقت سجدہ کو جھکیں کہ اس کے ساتھ سجدہ میں پہنچیں بذلک امر النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اصحابہ رضی اللہ عنھم(اسی کا حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو حکم دیا)۔‘‘ (فتاوی رضویہ، ج 6، ص 591، 592، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مقتدی کو ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے کےلیے امام کے اس رکن کی طرف منتقل ہونے کا علم ضروری ہے، اس علم کے مختلف ذرائع ہیں، ان میں جس طرح امام سے تکبیر ِ انتقال سننا ایک ذریعہ ہے، یونہی امام کے افعال دیکھنا بھی ہے، اور ظاہر ہے کہ عمل کےلیے علم ہی ضروری ہے، تو جس طرح مقتدی تکبیر سن کر ایک رکن سے دوسرے کی طرف انتقال کرسکتا ہے یونہی امام کو دیکھ کر بھی کر سکتا ہے۔درمختار، رد المحتار، مراقی الفلاح اور اس کے حاشیہ طحطاوی میں ہے، و النص للطحطاوی: ’’(العلم بانتقالات الإمام لسماع أو رؤية) من الإمام أو المقتدي و مثله الرؤية‘‘ ترجمہ:امام کے انتقالات کا علم ہو، چاہے سن کر یا دیکھ کر یعنی امام یا مقتدی سے تکبیرِ انتقال سن کر، اسی کی مثل(ان کے انتقالات ) دیکھنا بھی ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی الفلاح، ص 293، دار الكتب العلمية، بيروت)
فتاوی نوریہ میں ہے:’’ہمارے ائمہ کرام نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ براہِ راست امام یا مکبر کی آواز ہی سے مقتدی مطلع ہو کر نماز ادا کرے تو جائز ورنہ نہیں، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ انتقالات ِ امام کا علم شرط ِاقتداء ہے۔۔۔ پھر اس مطلق سماع اور رو یت کا ذکر بھی باعتبارِ غالب ہے ورنہ کسی اور ذریعے سے بھی علم ہوجائے تو کافی ہے مثلاً جو شخص نا بینا اور بہرہ ہو وہ پاس کے مقتدی کی حرکاتِ انتقالیہ سے بذریعہ قوتِ لامسہ علم حاصل کرتے ہوئے اقتدا کر سکتا ہے۔‘‘(فتاوی نوریہ، ج 1، ص 400، شعبہ تصنیف و تالیف دار العلوم حنفیہ نوریہ، بصیر پور)
جب مقتدی کو انتقال کے لیے امام کے افعال دیکھنا بھی کافی ہے، توامام کےتکبیرِ انتقال کہنے کےانتظار کو ضروری قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں۔
البتہ یہاں ایک دوسرا کلام ہے کہ سنت میں امام کی اتباع سنت ہے ، جیسےبہار شریعت میں ہے: ’’سنت میں متابعت سنت ہے۔‘‘ (ج 1، حصہ 3، ص 520)، تو مقتدی کےلیے سنت یہی ہونا چاہیے کہ امام کی تکبیر کی اتباع کریں اور اس کے تکبیر کہنے کے بعد تکبیر کہتے ہوئے انتقال کریں، اس سے پہلے اگر وہ انتقال کریں گے تو متابعت نہیں رہے گی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ امام کی سنت میں اتباع اس وقت سنت ہے جب امام سنت کو اس کے پورے مسنون طریقے سے ادا کرےلیکن اگر امام کسی سنت کی مخالفت کرتا ہے، چاہے اس طرح کے سرے سے سنت ہی ترک کردے یا اس طرح کہ امام سنت توترک نہ کرے لیکن اس کے وقت سے موخر اداکرے، تو مقتدی سنت کو اس کے مقام پر اس کے طریقے ہی سے ادا کرےجبکہ متابعت واجبہ کی مخالفت نہ ہوتی ہو کیونکہ امام کسی سنت کی مخالفت کرے، یا تو بالکل ہی ترک کردے یا پھر سنت کو اس کے مقام سے مؤخر کردے، تو ا یسی صورت میں مقتدی پر امام کی سنن میں اتباع نہیں بلکہ مقتدی خود مستقل ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ مقتدی کا نماز کی سنن ادا کرنا ،امام پر موقوف نہیں کہ امام ادا کرے تو وہ ادا کرے، امام ترک کردے تو مقتدی بھی ترک کردے، یہ تو رہا اصل سنت کے فعل و ترک کا معاملہ، اسی طرح سنت کو اپنے وقت سے مؤخر کرنے کے حوالے سے بھی مقتدی پر امام کی اتباع نہیں یعنی اگر کسی سنت کا جو وقت و مقام ہے، امام اگر اس وقت سے اسے مؤخر کرتا ہے تومقتدی مؤخر نہیں کرے گا، بلکہ وہ اسے اپنے وقت پر ادا کرے گا، ایسی صورت میں اگر چہ مقتدی اس سنت کو ادا کرنے میں امام سے مقدم ہوگا اور امام مؤخر، لیکن یہ شرع کی خلاف ورزی نہیں بلکہ مطلوب شرع و مندوب ہے۔
فتاوی رضویہ میں ہے: ’’تركِ سنّت میں امام کی پیروی نہیں بلکہ موجبِ اسا ء ت وکراہت ہے اگر وہ چھوڑے مقتدی بجالائے جبکہ اس کی بجا آوری سے کسی واجب فعل میں امام کی متابعت نہ چھوٹے ولہذا علماء فرماتے ہیں اگر امام وقت ِتحریمہ رفع یدین یاتسبیح رکوع و سجود یا تکبیر انتقال یا ذکر قومہ ترك کرے تو مقتدی نہ چھوڑے۔۔۔ اور اگر رکوع و سجود میں ایك ہی تسبیح کہہ کر سر اُٹھائے تو مقتدی بھی ناچار سنت تثلیث ترك کرے ورنہ قومہ و جلسہ کی متابعت میں خلل آئے گا۔ ھو الصحیح کما فی الخانیۃ و الخلاصۃ و الخزانۃ و الوجیزو الفتح و البحر و غیرھا من الاسفار (ترجمہ: یہی صحیح ہے جیسا کہ خانیہ، خلاصہ، خزانہ، وجیز، فتح، بحر وغیرہ کتب فقہ میں ہے)۔۔۔
اقول: و تحقیق المقام علی ما علمنی الملك العلام ان السنن لاحظ لہا فی المتابعۃ الا بالتبع ذلك لان معنی متابعتك غیرك جعلك نفسك تابعالہ و التبعیۃ انما تتصور بشیئین احدھما فی نفس اتیان شیئ بمعنی انہ ان فعلہ فعلت و ان ترکہ ترکت و الآخرفی وقتہ فلا تتقدم علیہ و لا تسبقہ الیہ و ان لم یکن فعلك متوقفا علی فعلہ و لا متقیدا بتقدمہ بل تفعلہ و ان لم یفعل و تبادر الیہ و ان لم یاخذ فیہ بعد فما انت تابع لہ بل انت مستقل بنفسك غیرتابع ولامتابع و ھذا ظاہر جدا۔
و اذ قد علمت ان اتیان الماموم بالسنن غیر متقید باتیان الامام بل یاتی بھا ان ترکھا کما اسمعناك علیہ نصوص الائمۃ، و من لازم ذلك جواز التقدم علیہ مع الندب الیہ لجواز ان یرجع الامام بعد الترك الی الفعل کما اذا رکع فصوب راسہ و طبق اکفہ او ضم اصابعہ او بقی صامتا غیر مسبح و الماموم قد فعل کل ذلك بطلب الشرع ثم عاد الامام فسوی و اخذ و خرج و سبح فقد تقدم فعل الماموم و ھو فیہ غیر ملوم بل الیہ مندوب و ھو منہ معتمد محسوب۔
فقد ثبت ان لا مدخل للمتابعۃ فی السنن و المستحبات بل الماموم مستبد فیھا غیر داخل تحت حکم الامام و لم یتناولہ تحکیمہ ایاہ علی ذاتہ، و التزامہ ان یصلی بصلاتہ فیما ھو محجور فیہ عن التقدم علیہ و الاستبداد دونہ و ما ھوحقیقۃ الا الواجبات الفعلیۃ اذ ھی موضوع الاقتداء اصالۃ۔ ۔۔ و منھا یسری الٰی غیرھا و ان سری کوجوب ترك سنۃ یلزم من فعلھا مخالفۃ الامام فی واجب فعلی فلیس ذلك للمتابعۃ فی ترك السنۃ بل فی الواجب المذکور کعدم جوازان یاتی بسنن الرکوع قبل رکوع الامام فانہ لایفعلھا الا فی الرکوع و لارکوع لہ قبل رکوعہ فعن ھذا امتنع تقدیمھا علی رکوعہ لا علی فعلیۃ السنن کما علمت و ھذا معنی قولنا لا حظ لھا من المتابعۃ الا بالتبع۔‘‘
(ترجمہ: میں کہتا ہوں:مجھے ملک علام جل جلالہ نے جو علم دیا اس کے مطابق اس مقام میں تحقیق یہ ہے کہ سنن میں متابعت کا کوئی حصہ نہیں مگر بطور تبعیت، کیونکہ تمہارا غیر کی متابعت کرنے کا معنی یہ ہے کہ تم خود کو اس کے تابع بنا رہے ہو، اور تابع دو چیزوں سے متصور ہو سکتا ہے، ایک کسی چیز پر عمل کرنے میں متابعت یعنی اگر وہ کرے تو تم کرو، وہ ترک کردے تم بھی کردو، دوسرا اس عمل کے وقت میں متابعت یعنی تم اس عمل کو اپنے متبوع سے پہلے نہ کرو۔ اور اگر تمہارا عمل کرنا اس کے عمل کرنے پر موقوف نہیں، نہ ہی اس کے پہلے کرنے سے مقید ہے، بلکہ وہ نہ کرے تو بھی تم کرو گے اور وہ اگر چہ اس عمل میں ابھی شروع نہیں ہوا، تم اس عمل کی ابتدا کرو گے، تو ایسی صورت میں تم اس کے تابع نہیں بلکہ مستقل ہو اور یہ انتہائی واضح ہے۔
اور جب تم نے یہ جان لیا کہ مقتدی کا سنن پر عمل امام کے عمل پر موقوف نہیں بلکہ امام ترک کردے تو بھی مقتدی عمل کرے گا جیسا کہ ہم نےائمہ کی تصریحات تمہیں دکھائیں، تو اس کا لازمی تقاضا مقتدی کا سنن کو امام سے پہلے بجا لانے کا جواز مع استحباب ہے کیونکہ ممکن ہے کہ امام سنت ترک کرنے کے بعد اسے پھر بجالائے، مثلًا: امام نے رکوع میں سرپست کردیا، اپنی دونوں ہتھیلیاں بند کرلیں، یا انگلیاں متصل رکھیں یا تسبیح کہے بغیر خاموش رہا، حالانکہ مقتدی ان تمام(سنن) کو بجالایا، کیونکہ شرعًا یہ تمام مطلوب تھیں، پھر امام لوٹا اور اس نے سر برابر کیا، ہتھیلیوں سے گھٹنے پکڑے، انگلیوں میں انفصال کیا اورتسبیح کہی تو یہاں اگر چہ مقتدی نے پہلے عمل کیا لیکن وہ اس میں قابل ملامت نہیں بلکہ ایسا کرنا مستحب و باعث اجر و ثواب ہے۔
تو ثابت ہوا کہ سنن و مستحبات میں متابعت کا کوئی دخل نہیں بلکہ مقتدی ا س میں مستقل ہے، امام کے حکم کے تحت داخل نہیں، اور مقتدی کا امام کو اپنے اوپر حاکم بنانا سنن و مستحبات کو شامل نہیں، اور مقتدی کا یہ التزام کہ امام کی نماز ادا کرے گا ان اشیاء میں ہے جہاں وہ امام سے مقدم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی مستقل ہوتا ہے، اور حقیقتاً یہ صرف افعالِ واجبہ میں ہوتا ہے کہ اقتدا میں اصل یہی مقصود ہیں۔۔۔ ہاں! ان واجبات سے سنن وغیرہ کی طرف اتباع سرایت کرتی ہے، جیسے مقتدی پر اس سنت کو ترک کرنے کا وجوب جسے ادا کرنے سے امام سے کسی واجب فعلی میں مخالفت لازم آتی ہو، تو یہ اصل میں ترک ِسنت میں متابعت کی وجہ سے نہیں بلکہ مذکورہ واجب میں اتباع کی وجہ سے ہے، جیسے امام کے رکوع میں جانے سے پہلے رکوع کی سنن کو ادا کرنے کا عدم جواز، کیونکہ رکوع کی سنن مقتدی رکوع ہی میں ادا کرسکتا ہے اور امام کے رکوع سے پہلے مقتدی کا رکوع غیر معتمد ہے، تو اس وجہ سے امام کے رکوع سے پہلے مقتدی کا رکوع کرنا منع ہے، یہ سنت کی ادائیگی (میں تقدیم ) کی وجہ سے نہیں جیسا کہ تم نے جان لیا، اور ہمارے قول کہ سنن میں اتباع نہیں مگر تبعیت کے طور پر کا یہی معنی ہے۔“ (فتاوی رضویہ، ج 6، ص 408 تا 415، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم