کیا امام کو نماز میں بھول مقتدیوں کے وضو کی وجہ سے ہوتی ہے؟

کیا امام کو نماز میں بھول مقتدیوں کی غلطی کیوجہ سے ہوتی ہے؟

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-2048

تاریخ اجراء: 07جمادی الاخریٰ 1446 ھ/10 دسمبر 2024 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا مقتدیوں کا وضو صحیح نہ ہونے کی وجہ سے امام کو نماز میں بھول ہوتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   بلا شبہ امام کو متشابہ لگنے کا ایک   سبب مقتدی کا صحیح سے وضو نہ کرنا بھی ہے، جب وہ وضومیں کمی کرتاہے تو اس کی صحبت بد کااثر امام پر پڑھتا ہے، یہ بات حدیث مبارک میں بیان ہوئی ہے اور شارحین حدیث نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے  بیان فرمایاکہ  جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ  و سلم  کو وضومیں  لوگوں کی کوتاہی کااثر ہوتاہے تو ہمارے دور میں  لوگوں کی کوتاہیوں کے وجہ سے عام امام کس قدر متاثر ہوسکتے ہیں؟ اس لیے عبرت پکڑتے ہوئے وضواوردیگر عبادتوں میں کوتاہیوں سے بچناضروری ہے۔

   سنن نسائی میں ہے:

   ’’عن رجل من اصحاب  النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم؛’’انہ صلی صلوٰۃ الصبح فقرأ الروم  فالتبس علیہ فلما صلیٰ قال ما بال اقوام یصلون معنا لا یحسنون الطھور فانما یلبس علیناالقرآن اولٰئک‘‘

   یعنی ایک روز نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم صبح کی نماز میں سورہ رُوم پڑھتے تھے اور متشابہ لگا۔ بعد نماز ارشاد فرمایا کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اچھی طرح طہارت نہیں کرتے انہیں کی وجہ سے امام کو قراء ت میں شبہہ پڑتا ہے۔ (سنن النسائی جلد 1، صفحہ 151، مطبوعہ لاہور)

   اس روایت کے تحت لمعات التنقیح میں فرمایا:

   فيه تأثير الصحبة أشد تأثيرا، فإن مثل رسول الله -صلى الله عليه و سلم- مع غاية كماله في قراءة القرآن في حالة الصلاة التي هي أتم أحوالها التي ها قرة عينه بشهود ربه، إذا كان يتأثر من أحد من آحاد أمته لترك بعض الآداب في الوضوء الذي ليس عبادة مقصودة، فكيف لغيره من ضعفاء الأمة من صحبة أهل الأهواء و البدع و الفسق و المعاشرة بهم؟ إن في هذا لعبرة لأولي الألباب

   اس میں صحبت کا اثر سب سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، جو کمال کی انتہا پر تھے، جب نماز کی حالت میں قرآن کی تلاوت کر رہے ہوتے، جو کہ سب سے کامل حالت ہوتی ہے اور جس میں وہ اپنے رب کے مشاہدے سے آنکھوں کی ٹھنڈک پاتے، اگر اس وقت بھی وہ اپنی امت کے کسی فرد کے وضو کے بعض آداب ترک کرنے سے متاثر ہو جاتے، حالانکہ وضو کوئی مقصود عبادت نہیں، تو پھر امت کے دیگر کمزور افراد کا حال کیا ہوگا، جب وہ اہلِ اھواء، بدعت، فسق اور گناہگاروں کی صحبت میں وقت گزاریں گے؟ یقیناً اس میں عقل والوں کے لیے بہت بڑی عبرت ہے۔(لمعات التنقیح، جلد 2، صفحہ 26۔ 27، مطبوعہ: بیروت)

   اس روايت كے تحت مرقاۃ المفاتیح میں فرمایا:

   فيه إشارة إلى أن السنن والآداب مكملات للواجب يرجى بركتها، و في فقدانها سد باب الفتوحات الغيبية، و إن بركتها تسري إلى الغير كما أن التقصير فيها يتعدى إلى حرمان الغير. تأمل أيها الناظر إذا كان رسول الله- صلى الله عليه و سلم- يتأثر من مثل تلك الهيئة، فكيف بالغير من صحبة أهل البدعة؟ أعاذنا الله و رزقنا صحبة الصالحين

   یعنی اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سنتیں اور آداب واجب کو مکمل کرنے والے ہیں، جن کی برکت کی امید کی جاتی ہے اور ان کے نہ پائے جانے  سے غیبی فتوحات کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور ان کی برکت دوسروں تک بھی سرایت کرتی ہے، جیسا کہ ان میں کمی کا اثر دوسروں کے محروم ہونے تک پہنچتا ہے۔ اے غور و فکر کرنے والے! سوچ! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایسی معمولی سی حالت سے بھی متاثر ہوتے تھے، تو پھر اہلِ بدعت کی صحبت کا اثر دوسروں پر کیا ہوگا؟ اللہ ہمیں اس سے محفوظ رکھے اور ہمیں نیک لوگوں کی صحبت عطا فرمائے۔(مرقاۃ المفاتیح، جلد 2، صفحہ 20، مطبوعہ:بیروت)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم