امام کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے ہوں تو مقتدی کی نماز ہو جائیگی؟

شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے ہوں تو نماز کا حکم؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر امام کے پائنچے ٹخنوں سے نیچے ہوں، تو کیا اس کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرما دیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مرد کے لیے پائجامہ یا شلوار کے پائنچے ٹخنوں کے نیچے رکھنا اگر تکبر کی نیت سے ہو، تو حرام و گناہ ہے اور اس صورت میں نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے، جسے دوبارہ پڑھنا واجب ہے، لیکن اگر یہ تکبر کے طور پر نہ ہو، تو مکروہ تنزیہی ہے اور اس صورت میں نماز محض خلاف اولیٰ ہوتی ہے، جس کا اعادہ واجب نہیں۔ صورتِ مسئولہ میں امام کو اپنے پائنچے ٹخنوں سے اوپر رکھنے کا التزام کرنا چاہیے، مگر امام کے دل پر حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ اس کی نیت فخر و تکبر کی ہے یا نہیں، لہٰذا محض پائنچے نیچے ہونے کی وجہ سے اس امام کی اقتدا منع نہیں ہوگی۔ ممکن ہے وہ پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہی رکھتا ہو، مگر سرک کر بلا قصد و اختیار نیچے ہو جاتے ہوں، کیونکہ اس صورت میں یہ معاف ہے، پس نماز ہو جائے گی۔

سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ، مسند احمد، مؤطا امام مالک، مشکوۃ المصابیح وغیرہ میں ہے:

و اللفظ للآخر ”عن أبي سعيد الخدري رضي اللہ عنه قال: سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم يقول: إزرة المؤمن إلى أنصاف ساقيه لا جناح عليه فيما بينه و بين الكعبين  ما  أسفل  من  ذلك  ففي  النار، قال ذلك ثلاث مرات و لا ينظر اللہ يوم القيامة إلى من جر إزاره بطرا

 ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: مؤمن کا تہبند اس کی آدھی پنڈلی تک ہو، اس پر پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان میں کوئی حرج نہیں ہے، (لیکن) جو اس سے زیادہ نیچے ہوگا، وہ آگ میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی، اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کرے گا، جو اپنا تہبند تکبر کے طور پر گھسیٹتا ہے۔ (مشكاة المصابيح، كتاب اللباس، جلد 2، صفحہ 1243، حدیث 4331، المكتب الإسلامي، بيروت)

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) سے سوال ہوا: ”جو امام ازار ٹخنوں کے نیچے تک پہن کر نماز پڑھائے،وہ نماز مکروہ تحریمی ہے یا تنزیہی؟“ تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”ازار کا گٹوں سے نیچے رکھنا اگر برائے تکبر ہو، حرام ہے،اور اس صورت میں نماز مکروہ تحریمی، ورنہ صرف مکروہ تنزیہی، اور نماز میں بھی اس کی غایت خلافِ اولیٰ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے: صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)! میرا تہبند لٹک جاتا ہے جب تک میں اس کا خاص خیال نہ رکھوں، فرمایا:

لست ممن یصنعہ خیلاء

 (تم ان میں نہیں ہو، جو براہِ تکبر ایسا کریں)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 388، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1421ھ / 2000ء) لکھتے ہیں: ”ٹخنے سے نیچے اگر پائجامہ یا تہبند تکبراً ہے، تو حرام و گناہ ہے، اور اس کا مرتکب فاسق معلن، اس سے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے، جس کا دہرانا واجب ہے۔ اور اگر بطور فیشن ہے، تو بھی یہی حکم ہے کہ یہ فساق کی وضع ہے اور فساق کی وضع اختیار کرنا حرام۔ اور آج کل ٹخنے سے نیچے پائجامہ رکھنے والے اسی قسم کے ہیں، خواہ وہ عالم کہلائیں یا حافظ یا امام، اللہ تعالی مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ اور اگر یہ صورت ہے کہ وہ پائجامہ یا تہبند باندھتا ہے ٹخنوں کے اوپر، لیکن پھر وہ از خود سرک کر بلا قصد و اختیار نیچے ہو جاتا ہے، تو معاف ہے۔“ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد 5، صفحہ 701، جامعہ اشرفیہ مبارک پور)

فتاوی تاج الشریعہ میں ہے: ”ٹخنوں سے نیچا پائجامہ پہننا مکروہِ تنزیہی ہے، جبکہ از راہِ تکبر نہ ہو، ورنہ نماز مکروہِ تحریمی ہوگی، اور قلب پر حکم لگانا ممکن نہیں اور بدگمانی حرام ہے، اور امام کے قصد پر حکم کرنا دشوار ہے۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ ایسا پائجامہ نہ پہنے، اور اس وجہ سے اس کی اقتدا منع نہ ہوگی۔“ (فتاوی تاج الشریعہ، جلد 4، صفحہ 73، شبیر برادرز، لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-880

تاریخ اجراء: 18 ربيع الاول 1447ھ/12 ستمبر 2025ء