
مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر: MUI-005
تاریخ اجراء: 20شعبان المعظم1444 ھ / 30 اپریل 2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ امام صاحب جب تیسری رکعت مکمل کر کے چوتھی کے لیے کھڑے ہو رہے تھے، تو ایک مقتدی نے اس تیسری رکعت کو چوتھی سمجھ کر لقمہ دیا۔ لیکن امام صاحب نے لقمہ نہیں لیا۔ بلکہ چوتھی کے لیے کھڑے ہو گئے۔ رہنمائی فرمائیں کہ اس مقتدی کی نماز کا کیا حکم ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں امام کو غلط لقمہ دینے والے مقتدی کی نماز فاسد ہوگئی، کیونکہ لقمہ دینا ایک اعتبار سے امام سے کلام کرنا ہے کہ آپ غلطی کر رہے ہیں یا آپ کو یہاں یہ کرنا چاہیے، جبکہ دورانِ نماز کلام کرنا نماز کو فاسد کر دیتا ہے، البتہ بوقتِ ضرورت،اصلاحِ نماز کے لیے اور مواضع نص (یعنی جن مقامات پر لقمہ دینے کے متعلق خاص نص وارد ہے ان) میں لقمہ دینے کو فقہائے کرام نے جائز قرار دیا ہے۔ جبکہ صورتِ مسئولہ میں اس کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی اس مقام پر لقمہ دینے کے متعلق کوئی نص وارد ہے، لہذا یہ کلام قرار پائے گا اور لقمہ دینے والے کی نماز فاسد ہو جائے گی۔ اس پر لازم و ضروری ہے کہ اپنی اس نماز کو دوبارہ صحیح طریقے سے ادا کرے،البتہ چونکہ امام نے اس لقمے کو قبول نہیں کیا اس لیے امام اور دیگر مقتدیوں کی نماز صحیح ادا ہوئی۔
غلط لقمہ دینے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے جیساکہ فتاوی ہندیہ میں ہے: ’’تفسد صلاته بالفتح مرة ولا يشترط فيه التكرار وهو الاصح هكذا في فتاوی قاضی خان‘‘ ترجمہ: صرف ایک مرتبہ غلط لقمہ دینے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، اس کے لیے تکرار شرط نہیں اور یہی زیادہ صحیح ہے ایسا ہی فتاوی قاضی خان میں بھی ہے۔(فتاوی ہندیہ، جلد 1، صفحه 99، مطبوعه دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے:’’ قد نص فی الفتح في نفس مسئلة الفتح أن التكرار لم يشترط في الجامع اى ان الجامع الصغير لم يشترط للافساد تكرار الفتح بل حكم به مطلقا قال وهو الصحيح وكذا صححه في الخانية وقد علم هذا من مذهب الامام فانه اذا جعل كلاما فقلیله و كثيره سواء فاعرف و تثبت‘‘ ترجمہ: فتح القدیر میں خاص لقمہ کے بیان میں اس بات کی صراحت ہے کہ جامع الصغیر میں غلط لقمہ کی وجہ سے نماز فاسد ہونے کے لیے غلط لقمہ کی تکرارکی شرط نہیں لگائی گئی ہے، بلکہ مطلقا فساد نماز کا حکم دیا گیا ہے، اور کہا یہی صحیح ہے، اسی طرح خانیہ میں بھی اس کی تصحیح کی گئی ہے، اور مذہب امام کے حوالے سے یہ معلوم ہے کہ جب انہوں نے اسے کلام قرار دیا ہے ، تو اب کلام کے قلیل اور کثیرہونے کا ایک ہی حکم ہو گا، اسے اچھی طرح جان لو اور ثابت قدم رہو۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 269، مطبوعہ برکات رضا)
لقمہ دینا در اصل امام سے کلام کرنا ہے اور یہ صرف بوقتِ ضرورت،اصلاحِ نماز کے لیے اور مواضعِ نص میں ہی جائز ہے، اس کےعلاوہ ناجائز اور مفسدِ نماز جیساکہ اعلی حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:نمازی جس لفظ سے کسی ایسے معنی کا افادہ کرے جو اعمال نماز سے نہیں وہ کلام ہوجاتا اور مفسد نماز قرارپاتا ہے اگرچہ لفظ فی نفسہٖ ذکر الٰہی یا قرآن ہی ہو اگرچہ اپنے محل ہی میں ہو، مثلاً کسی موسٰی نامی شخص سے نمازی نے کہا:(’’ماتلک بیمینک یاموسٰی‘‘ یعنی اے موسٰی!تیرے ہاتھ میں کیاہے؟) نماز جاتی رہی، اگرچہ یہ الفاظِ آیہ کریمہ ہیں، مگرجبکہ ایسا قصد بضرورتِ اصلاحِ نماز ہو جیسے مقتدیوں کاامام کوبتانا یا اس کے جواز میں خاص نص آگیا ہو جیسے کوئی دروازے پر آواز دے یہ نماز پڑھتاہو اس کو مطلع کرنے کے لئے سبحان اللہ یا لاالٰہ الااللہ یا اللہ اکبر کہے توصرف ان صورتوں میں نماز نہ جائے گی اور ان کے ماوراء میں مطلقاً اسی اصل کلی پر عمل ہو کر فسادِ نماز کاحکم دیاجائے گا۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 270/271، مطبوعہ برکات رضا)
بلا ضرورت امام کو لقمہ دینے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے جیساکہ بحر الرائق میں ہے: ’’لأن القياس فسادها به عند قصد الإعلام وإنما ترك للحديث الصحيح من نابه شيء في صلاته فليسبح فللحاجة لم يعمل بالقياس فعند عدمها يبقى الأمر على أصل القياس‘‘ ترجمہ: قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ تسبیح و تہلیل کے ذریعے مطلع کرنے کا قصد کیا جائے، تو اس سے نماز فاسد ہو جائے، لیکن حدیث صحیح کی وجہ سے (بعض مقامات پر) اس قیاس کو ترک کیا گیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر حالت نماز میں کسی کو تنبیہ کرنی ہو، تو تسبیح کہو، لہذا حاجت کی وجہ سے قیاس پر عمل نہیں کیا جائے گا، لیکن جب حاجت نہ ہو، تو اصل قیاس کے مطابق حکم لگے گا۔(البحر الرائق، جلد 2، صفحہ 8، مطبوعہ دار الکتاب الاسلامی)
اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اعلی حضرت امام اہل سنت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”ظاہر ہے کہ جب امام کوقعدہ اولیٰ میں دیرہوئی اور مقتدی نے اس گمان سے کہ یہ قعدہ اخیرہ سمجھا ہے تنبیہ کی تودوحال سے خالی نہیں یا تو واقع میں اس کاگمان غلط ہوگا یعنی امام قعدہ اُولیٰ ہی سمجھا ہے اور دیر اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے اس بار التحیات زیادہ ترتیل سے ادا کی جب توظاہر ہے کہ مقتدی کابتانا نہ صرف بے ضرورت بلکہ محض غلط واقع ہواتویقینا کلام ٹھہرا اور مفسد نماز ہوا۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 264، مطبوعہ برکات رضا)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم