
دار الافتاء اہلسنت(دعوت اسلامی)
سوال
اقامت ہونے کے بعد امام کا گفتگو کرنا کیساہے؟
جواب
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
اقامت ہو جانے کے بعدبغیر ضرورت کلام کرنا مکروہ ہے اور کسی دینی معاملے کے متعلق کلام کرنے (جیسے نماز کے آداب بتانے یا صفیں درست کرنے کا کہنے وغیرہ) میں کوئی کراہت نہیں ہے، بلکہ اقامت ہو جانے کے بعد صفیں درست کرنے کا کہنا تو احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"اقيمت الصلاة و رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم نجي في جانب المسجد"
ترجمہ: نماز(عشاء) کی تکبیر کہی گئی اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و الہ وسلم مسجد کے ایک کونے میں ایک شخص سے سرگوشی فرما رہے تھے۔ (سنن ابی داؤد، ج 1، ص 214، رقم الحدیث 544، مطبوعہ ہند)
حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا حتی کانما یسوی بھا القداح حتی رای انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اللہ لتستون صفوفکم لیخالفن اللہ بین وجوھکم“
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم ہماری صفیں اتنی سیدھی کرواتے تھے کہ گویا ان کے ذریعے تیروں کو سیدھا کرتے ہوں حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم نے دیکھا کہ ہم یہ بات سمجھ گئے ہیں پھر ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و اٰلہ و سلم (نماز کے لیے)تشریف لائے اور قریب تھا کہ نماز کے لیے تکبیرتحریمہ کہتے کہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نظر مبارک ایک ایسے شخص پر پڑی جو صف سے اپنے سینے کو باہر نکالے ہوئے تھا، تو نبی پاک صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا :اے اللہ کے بندو! تم ضرور اپنی صفوں کو درست کر لوگے یا اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اختلاف (بغض و عداوت) پیدافرمادے گا۔ (صحیح مسلم، ج1، ص182، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
”اقیمت الصلاۃ فاقبل علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوجھہ قال: اقیموا صفوفکم و تراصوا فانی اراکم من وراء ظھری“
ترجمہ:نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے رُخ انور سے ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو اور مل کر کھڑے ہو ،بلاشبہ میں تمہیں پسِ پشت بھی دیکھتا ہوں۔ (صحیح بخاری، ج 1، ص 100، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"كره الحنفيۃ الكلام بين الاقامۃ والاحرام إذا كان لغير ضرورة و أما إذا كان لأمر من أمور الدين فلا يكره"
ترجمہ: احناف اقامت اور تکبیرِ تحریمہ کے درمیان کلام کرنے کو مکروہ سمجھتے ہیں، جبکہ وہ کلام کرنا بغیر ضرورت ہو اور اگر کسی دینی معاملے پر کوئی بات کی، تو اس میں کراہت نہیں۔ (عمدۃ القاری، ج 5، ص 158، مطبوعہ: بیروت)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3792
تاریخ اجراء: 05 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ/ 03 مئی 2025 ء