مسافر نے اقامت کی نیت دیر سے کی تو قصر نماز کا حکم؟

کسی ملک گیا اقامت کی نیت نہیں کی، قصر کرتا رہا، پھر تین ماہ بعداقامت کی نیت کی، تو گزشتہ نمازوں کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

اگر کوئی دوسرے ملک جائےاور وہاں اس نے تین یا چار مہینے گزار لیے، اس دوران وہ قصر نماز ہی پڑھتا رہا ہے، اقامت کی نیت اس نے نہیں کی۔ اس دوران وہ یہی سمجھتا رہا کہ شاید وہ دوبارہ پاکستان چلا جائے، اب جب اس نے وہاں پندرہ دن سے زیادہ کی اقامت کی نیت کر لی ہے، تو کیا جو اس نے پچھلی نمازیں پڑھی قصر کے ساتھ اس کا دوبارہ اعادہ کرنا پڑے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں اگر شرعی سفر کرکے دوسرے ملک پہنچا اور وہاں مستقل پندرہ دن رہنے کا حتمی ارادہ نہیں تھا بلکہ آج واپس چلا جاؤں یا کل چلا جاؤں والی کیفیت تھی تو ایسی صورت میں جتنے دن وہ اس ملک میں رہا، مسافر ہی رہا، نمازوں میں قصر ہی کرے گا، اس کیفیت کے بعد پھر جب اس کی پندرہ دن یا اس سے زائد دن رہنے کی حتمی نیت ہوگئی تو اب سے وہ مکمل نماز پڑھے گا، پچھلی پڑھی گئی نمازیں نہیں دوہرائے گا۔

حلبہ میں غایہ کے حوالے سے ہے:

نیۃ الاقامۃ خمسۃ عشر یوما یعتبر عزمہ علی الثبات

ترجمہ: پندرہ دن رہنے کی نیت میں اس کا پختہ عزم ہونا معتبر ہے۔ (حلبۃ المجلی، جلد 2، صفحہ 528، دار الکتب العلمیہ، بیروت)

شرح سیر کبیر للسرخسی میں ہے:

و إن دخل المسلمون أرض الحرب فانتهوا إلى حصن و وطنوا أنفسهم على أن يقيموا عليه شهرا إلا أن يفتحوه قبل ذلك، أخبرهم الوالي بذلك، فإنهم يقصرون الصلاة. لأنهم لم يعزموا على إقامة خمس عشرة ليلة لمكان الاستثناء، فالفتح قبل مضي خمس عشرة ليلة محتمل

ترجمہ: اگر مسلمان دار الحرب میں داخل ہوئے اور کسی قلعے کے پاس پہنچ کر یہ نیت کر لی کہ ہم یہاں ایک مہینا رہیں گے الا یہ کہ ہم اس سے پہلے فتح حاصل کر لیں، یہ بات ان کو والیِ لشکر نے بتائی، تو تمام افراد قصر نماز ہی ادا کریں گے، کیونکہ استثنا کرنے کی وجہ سے ان کا پندرہ راتیں رہنے کا عزم نہیں، کیونکہ پندرہ راتوں سے قبل بھی فتح کا احتمال ہے۔ (شرح سیر کبیر، صفحہ 245، مطبوعہ الشرکۃ الشرقیۃ للاعلانات)

غنیہ میں اسی مسئلے کے ضمن میں ہے:

و لا بد فی تحقق النیۃ من الجزم

ترجمہ: (اقامت کی) نیت کےتحقق کے لئےجزم ہونا ضروری ہے۔ (غنیہ، جلد 1، صفحہ 540، مطبوعہ کوئٹہ)

فتاویٰ رضویہ میں ہے: ’’نیت سچے عزمِ قلب کا نام ہے، پندرہ دن ٹھہر نے کا ارادہ کرلے، اور جانتا ہے کہ اس سے پہلے چلے جانا ہے تو یہ نیت نہ ہوئی، محض تخیل ہوا۔۔۔ معراج الدرایہ پھر عالمگیریہ میں ہے:

قال اصحا بنا رحمھم ﷲ تعالٰی فی تاجر دخل مدینۃ لحاجۃ نوی ان یقیم خمسۃ عشر یوما لقضاء تلک الحاجۃ لایصیر مقیما لانہ متردد بین ان یقضی حاجتہ فیرجع و بین ان لا یقضی فیقیم فلا تکون نیتہ مستقرۃ

ہمارے اصحاب رحمھم اﷲ تعالٰی نے اس تاجر کے بارے میں فرمایا جوکسی شہرمیں کسی ضرورت کے لئے گیا، اس نے حصول حاجت کے لئے پندرہ دن اقامت کی نیت کرلی، تو وہ مقیم نہ ہوگا، کیونکہ وہ متردد ہے اس بارے میں کہ اگر اس کی حاجت پوری ہو گئی، تو لوٹ جائے گا اور اگرپوری نہ ہوئی، تو اقامت کرے گا تو اس کی نیت پختہ نہ ہوئی۔ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 261 ،262، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: Web-2152

تاریخ اجراء: 03 رجب المرجب 1446ھ / 04 جنوری 2025ء