
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
عشاء کی نماز کے تھوڑی دیربعد سوکر تہجد پڑھ سکتے ہیں یا فجر سے تھوڑی دیر پہلے پڑھنا ضروری ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
تہجد کی نماز کے لیےعشاء کے فرضوں کے بعد سونا شرط ہے، لہذا جو نماز ِعشاء کے بعد کچھ دیر کے لیے سو گیا وہ اٹھنے پرطلوع فجرسے پہلے تہجد پڑھ سکتا ہے، چاہے کوئی سابھی وقت ہو، اس سے معلوم ہوا تہجد کا فجر سے تھوڑی دیر پہلے ہونا ضروری نہیں، بلکہ مذکورہ شرط کے ساتھ رات کے کسی حصے میں بھی تہجد پڑھی جاسکتی ہے، ہاں! بہتروقف آدھی رات کے بعد والا ہے۔
المعجم الکبیر میں ہے
"عن الحجاج بن عمرو بن غزية صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: انما التهجد المرء يصلی الصلاة بعد رقدة"
ترجمہ: حجاج بن عمرو بن غزیہ رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول ہیں، ان سے مروی ہے: آپ فرماتے ہیں کہ تہجد یہ ہے کہ بندہ قدرے سو نے کے بعد نماز ادا کرے۔ (المعجم الکبیر، رقم الاثر 3216، جلد 3، صفحہ 225، مطبوعہ قاھرۃ)
سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "نمازِ تہجد وہ نفل کہ بعد فرضِ عشا قدرے سوکرطلوعِ فجر سے پہلے پڑھے جائیں۔" (فتاوٰی رضویہ، جلد 7، صفحہ 409، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ امجدیہ میں فرماتے ہیں: "نمازِ عشاء پڑھ کر سونے کے بعد جب اٹھے، تہجد کا وقت ہے اور یہ وقت طلوعِ فجر تک ہے اور بہتر وقت بعدِ نصف شب ہے اور اگر سویا نہ ہو، تو تہجد نہیں اگرچہ جو نفل پڑھے جائیں، صلوٰۃ اللیل انھیں شامل کہ صلوٰۃ اللیل تہجد سے عام ہے۔" (فتاویٰ امجدیہ، جلد 1، صفحہ 243، مکتبہ رضویہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مولانا محمد بلال عطاری مدنی
فتویٰ نمبر: WAT-3873
تاریخ اجراء: 30 ذو القعدۃ الحرام 1446 ھ / 28 مئی 2025 ء