
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ اگر کسی شخص نے چند دن تک عشاء کی نماز میں عشاء کے فرض بھول کر چھوڑ دئیے ہوں، تو اب فقط عشاء کے فرض قضا کرنے ہوں گے یا پھر وتر کی قضا بھی لازم ہو گی؟ میری والدہ کی عمر کافی زیادہ ہے، مزید حال ہی میں اچانک دو قریبی رشتہ داروں کے انتقال کی وجہ سے وہ ڈپریشن میں چلی گئی تھیں، اب کچھ بہتر ہوئی ہیں، تو انہوں نے بتایا کہ ان دنوں بقیہ نمازیں ٹھیک ادا کرتی رہی ہوں، لیکن یقینی طور پر یاد آیا ہے کہ چند دن نمازِ عشاء میں فرض ادا نہیں کئے، بس سنن و نوافل اور وتر پڑھے ہیں، تو اب قضا میں فرض ہی ادا کریں یا وتر بھی پڑھنے ہوں گے، کیونکہ میں نے سنا تھا کہ وتر، فرض کے بعد ہی ادا کرنے ہوتے ہیں؟ نیز کیا ان پر عشاء کے فرض قضا کرنے کا وبال بھی ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں اگر ایسا ہی ہوا ہے، تو جتنے دن آپ کی والدہ نے عشاء کے فرض ادا نہیں کئے، اتنے دن کے فقط فرضوں کی قضا کرنی ہو گی، وتروں کا اعادہ نہیں کریں گی۔
تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے کہ نمازِ عشاء اور وتر کے درمیان ترتیب فرض ہے، اگر کوئی بلا عذرِ شرعی جان بوجھ کر نمازِ عشاء سے پہلے وترپڑھ لے، تو نمازِ وتر ادا ہی نہیں ہوگی۔ البتہ اگر کسی نے بھول کر نمازِ عشاء سے پہلے وتر پڑھ لئے، تو ایسی صورت میں صرف نمازِ عشاء کا اعادہ کیا جائے گا، نمازِ وتر ادا ہوجائے گی۔اور مذکورہ صورت میں بھی فرض بھولنے کے سبب چھوٹے ہیں، لہذا وتر ادا کہلائیں گے اور اب فقط فرضوں کا اعادہ کرنا ہو گا۔ نیز اتنے دن فرض قضا ہونے میں آپ کی والدہ کی جانب سے کسی طرح بھی کوتاہی نہ پائی گئی ہو، تو وہ گنہگار نہیں ہوں گی کہ بھول جانے کی صورت میں گناہ معاف کر دیا گیا ہے۔
نسیان کے سبب گناہ معاف ہونے کے متعلق سنن ابن ماجہ میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
ان الله تجاوز لي عن امتي الخطا و النسيان و ما استكرهوا عليه
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ نے میری خاطر میری امت سے خطا، نسیان اور جس چیز پر انہیں مجبور کیا جائے، اس (کے گناہ) سے درگزر فرما دیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، صفحہ 147، مطبوعہ کراچی)
عشاء کے فرض اور وتر میں ترتیب اور بھولنےکے متعلق تبیین الحقائق میں ہے:
لا يقدم الوتر على العشاء لأجل وجوب الترتيب، لا لأن وقت الوتر لم يدخل حتى لو نسي العشاء و صلى الوتر جاز لسقوط الترتيب به۔۔۔ لو صلى الوتر قبل العشاء ناسيا أو صلاهما و ظهر فساد العشاء دون الوتر فإنه يصح الوتر و يعيد العشاء وحدها عنده؛ لان الترتيب يسقط بمثل هذا العذر
ترجمہ: وتر کو عشاء پر مقدم نہیں کیا جائے گا، یہ(وتر کو عشاء پر مقدم نہ کرنے کا) حکم اس لیے ہے کہ عشاء اور وتر کے درمیان ترتیب واجب ہے نہ کہ اس لیے کہ ابھی تک وتر کا وقت شروع نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی عشاء کی نماز پڑھنا بھول گیا اور وتر پڑھ لیے، تو درست ہے، کیونکہ بھول جانے کی وجہ سے ترتیب ساقط ہوگئی۔۔۔ اگر کوئی بھولے سے عشاء سے پہلے وتر پڑھ لے یا عشاء اور وتر(بالترتیب ہی) پڑھے، پھر وتر کے بغیر(صرف) نمازِ عشاء کا فاسد ہونا ظاہر ہوا، تو اس صورت میں امام اعظم(رحمہ اللہ) کے نزدیک وتر کی نماز درست ہو جائے گی اور وہ صرف عشاء کا اعادہ کرے گا، کیونکہ اس طرح کے عذر کے پائی جانے کی صورت میں ترتیب ساقط ہوجاتی ہے۔ (تبیین الحقائق، کتاب الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 81، مطبوعہ ملتان)
بہار شریعت میں ہے: اگرچہ عشا و وتر کا وقت ایک ہے، مگر باہم ان میں ترتیب فرض ہے، کہ عشا سے پہلے وتر کی نماز پڑھ لی تو ہوگی ہی نہیں، البتہ بھول کر اگر وتر پہلے پڑھ ليے یا بعد کو معلوم ہوا کہ عشا کی نماز بے وضو پڑھی تھی اور وتر وضو کے ساتھ تو وتر ہوگئے۔ (بہار شریعت، حصہ 3، صفحہ 451، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: ابو تراب محمد علی عطاری
مصدق: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: Pin-7599
تاریخ اجراء: 21ذو الحجۃ الحرام 1446ھ / 18 جون 2025ء