دوسری رکعت کے رکوع میں شامل ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو کرنا

دوسری رکعت کے رکوع میں شامل ہونے کی وجہ سے سجدہ سہوکرے گا یا نہیں؟

دارالافتاء اھلسنت عوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے امام کو دوسری رکعت کے رکوع میں پایا تو کیا اس پر نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرنا لازم ہو گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سجدۂ سہو کسی واجب کے بھولے سے چھوٹنے کی تلافی کے طور پر کیا جاتا ہے، محض امام کے ساتھ دوسری رکعت میں ملنے کی وجہ سے سجدۂ سہو لازم نہیں ہوتا۔ البتہ امام سے اگر سہو ہوا اور اس وجہ سے امام سجدۂ سہو کرے تو مسبوق سجدۂ سہو میں اس کی پیروی کرے گا، اگرچہ اس کے ملنے سے پہلے سہو واقع ہوا ہو۔

تنویرالابصار و درمختار میں سجدہ سہو کے متعلق ہے

"(یجب۔۔۔)۔۔(بترك)۔۔۔(واجب) مما مر في صفة الصلاة ( سهوا)"

 ترجمہ:صفۃ الصلاۃ کے عنوان کے تحت جوواجبات پیچھے مذکورہوئے ان میں سے کسی واجب کو بھول کر چھوڑنے کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوتاہے۔ (الدرالمختارمع ردالمحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجودالسہو، ج01، ص77، 80، دارالفکر، بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے

"ولا يجب السجود إلا بترك واجب أو تأخيره أو تأخير ركن أو تقديمه أو تكراره أو تغيير واجب بأن يجهر فيما يخافت وفي الحقيقة وجوبه بشيء واحد وهو ترك الواجب، كذا في الكافي ."

 ترجمہ: اور سہو کے سجدے واجب نہیں ہوتے مگر واجب کو ترک کرنے یااس میں تاخیر کرنے یا کسی رکن کو موخر یا مقدم کرنے یا اس کی تکرار کرنے یاکسی واجب میں تبدیلی کرنے سے یو ں کہ جہاں آہستہ تلاوت کرنی ہے وہاں بلندآوازسے کی جائے اور درحقیقت سجدہ سہو کا وجوب ایک چیزکے ساتھ ہے اور وہ ہے واجب کاترک کرنا، اسی طرح کافی میں ہے۔ (فتاوی ہندیہ، ج01، ص126، دارالفکر، بیروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے

”ولا يشترط أن يكون مقتديا به وقت السهو حتى لو أدرك الإمام بعد ما سها يلزمه أن يسجد مع الإمام تبعا له“

 ترجمہ: اور یہ شرط نہیں ہے کہ وہ سھو کے وقت بھی مقتدی ہو، یہاں تک کہ اگر اس نے امام کو اس کے سہو کرنے کے بعد پایا تو اس پر لازم ہے کہ امام کے ساتھ اس کی اتباع میں سجدہ سہو کرے۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد1، صفحہ128، مطبوعہ بیروت)

صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (سال وفات: 1367ھ/1948ء) لکھتے ہیں: ”مسبوق امام کے ساتھ سجدۂ سہو کرے، اگرچہ اس کے شریک ہونے سے پہلے سہو ہوا ہو۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحہ 715، مکتبة المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4212

تاریخ اجراء: 16ربیع الاول1447 ھ/10ستمبر 2520 ء