چار رکعت والی جماعت میں دو رکعت ملنے پر بقیہ نماز کا طریقہ

جماعت میں چار رکعتی نماز کی دو رکعتیں ملیں تو بقیہ نماز ادا کرنے کا طریقہ

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اِس بارے میں کہ اگر کوئی شخص چار رکعتی فرض (ظہر، عشاء، عصر) میں دورکعتیں گزرجانے کے بعد، تیسری رکعت میں جماعت کے ساتھ شریک ہوا، تو وہ اپنی بقیہ دو رکعتیں ادا کرتے ہوئے قراءت کرے گا یا نہیں؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص اپنی بقیہ دو رکعتیں ادا کرتے ہوئے ،دونوں رکعتوں میں قراءت کرے گا یعنی سورہ فاتحہ بھی پڑھے گا اور سورہ فاتحہ کے بعد سورت بھی ملائے گا کیونکہ یہ دو رکعتیں قراءت کے حق میں پہلی اور دوسری رکعت قرار پائیں گی اور فرائض کی پہلی اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ فاتحہ کے بعد سورت ملانا واجب ہے۔

در مختار میں ہے

(و المسبوق من سبقہ الامام بھا او ببعضھا و ھو منفرد) حتی یثنی و یتعوذ و یقرا۔۔۔ و یقضی اول صلاتہ فی حق قراءۃ

ترجمہ: مسبوق، جس پر امام تمام یا بعض رکعتوں میں سبقت لے گیا تو وہ منفرد (کے حکم میں) ہے یہاں تک کہ وہ ثنا پڑھے گا، تعوذ پڑھے گا اور قراءت کرے گا۔ اور وہ قراءت کے حق میں اپنی نماز کی پہلی رکعت ادا کرے گا۔ (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 417، 418، مطبوعہ: کوئٹہ)

بہارِ شریعت میں ہے "مسبوق نے جب امام کے فارغ ہونے کے بعد اپنی شروع کی تو حقِ قراءت میں یہ رکعت اول قرار دی جائے گی۔۔۔ دو ملی ہیں دو جاتی رہیں، تو ان دونوں میں قراءت کرے۔" (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 590، مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد سجاد عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: WAT-4147

تاریخ اجراء: 28 صفر المظفر 1447ھ / 23 اگست 2025ء