جماعت کھڑی ہونے میں کم وقت ہو تو سنتیں پڑھنے کا حکم

جماعت کھڑی ہونے میں کچھ وقت باقی ہو تو اس وقت سنتیں پڑھنا کیسا؟

مجیب:ابو حمزہ محمد حسان عطاری

مصدق:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-419

تاریخ اجراء:09 ربیع الاول 1446 ھ / 14 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں  کہ عمومًا مساجد میں یہ دیکھا ہے کہ کچھ لوگ جب نماز کے لیے آتے ہیں اور اب جماعت کھڑی ہونے کچھ ہی منٹ باقی رہتے ہیں تو وہ سنتیں پڑھنا شروع کردیتے ہیں جس کے سبب  ان کی ایک دو رکعت چھوٹ بھی جاتی ہیں، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ بالخصوص ظہر میں جب جماعت کھڑی ہونے میں اتنا وقت باقی نہ ہو کہ مکمل چار سنتیں پڑھی جاسکیں تو کیا سنتیں پڑھنا شروع کرنی چاہیے یا جماعت کے بعد اسے ادا کریں، اسی طرح عصر اور عشاء کی سنت قبلیہ اگر چھوٹ جاتی ہیں تو اس کو ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   فجر کی سنتوں کے علاوہ دیگر تمام سنن قبلیہ میں اصل یہ ہے کہ اگر نماز پڑھنے والا جانتا ہے کہ امام کے پہلی رکعت کے رکوع ادا کرنے سے پہلے وہ جماعت میں شامل ہوجائے گا تو  یہ سنتیں ادا کرے پھر جماعت میں شامل ہوجائے اور اگر اسے ظن غالب ہے کہ سنت پڑھنے کے سبب پہلی رکعت کا رکوع بھی نہیں مل سکے گا تو اب سنتیں پڑھنے کی بجائے جماعت میں شامل ہوجائے۔ ہاں فجر کی سنت کا حکم یہ ہے کہ اگر اسے معلوم ہے کہ امام کے ساتھ قعدہ میں بھی شامل ہوجائے گا تو    سنت فجر پڑھے، پھر جماعت میں شامل ہو اور اگر اندیشہ ہو کہ جماعت مکمل نکل جائے گی تو سنتِ فجر چھوڑ کر جماعت میں شامل ہوجائے۔

   ظہر کی سنت چھوٹ جائیں تو اب فرض ادا کرنے کے بعد  پہلے دو سنت جو بعد میں پڑھنے کی ہوتی ہیں اسے ادا کرلیں پھر چار سنت پڑھیں اور  اگرچاہیں تو پہلے چار سنت پڑھ لیں پھر دو سنت ادا کریں۔ پہلا طریقہ بہتر ہے۔ اور اگر  فجر کی سنت چھوٹ جائیں تو اب انہیں سورج نکلنے کے 20 منٹ بعد سے زوال کے وقت  سے پہلے ادا کر سکتے ہیں  اور اس کا ادا کرنا مستحب ہے۔

   جبکہ عشاء کی سنتیں قبلیہ اگر چھوٹ جائیں تو ان کو فرض کے بعد ادا کرنا  بطور سنت نہیں ہوگا  بلکہ یہ نفل نماز کے طور پر ادا ہوں گی، اور عصر کی سنتیں اگر چھوٹ جائیں تو ان کو فرض کے بعد نہیں پڑھ سکتے۔

   تنبیہ اکید :سنت فجر ہوں یا دیگر نمازوں کی سنتیں، اگر اتنے وقت پہلے پڑھ رہے ہیں کہ جماعت کھڑی ہونے سے پہلے ادا نہیں کر سکتے، تو ہمیشہ مسجد کے پیچھے کسی مقام پر ادا کریں یا گھر سے ہی پڑھ کر آئیں۔ صفوں کے درمیان یا بلا حائل پیچھے کھڑے ہوکر نہ پڑھیں۔

   فجر کے علاوہ دیگر سنتوں کے جماعت سے قبل پڑھنے کا حکم فتاوی عالمگیری اور  درمختار میں ہے: ”و أما بقية السنن فإن أمكنه أن يأتي بها قبل أن يركع الإمام أتى بها خارج المسجد و إن خاف فوت ركعة شرع معه“ ترجمہ: (فجر کی سنتوں کے علاوہ) باقی سنتوں کا حکم یہ ہے کہ امام کے رکوع میں جانے سے پہلے پڑھ لینا ممکن ہو تو خارج مسجد ان سنتوں کو پڑھے اور اگر ایک رکعت فوت ہونے کا بھی  اندیشہ ہے تو امام کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردے۔)الفتاوی الھندیہ جلد 1، صفحہ 120، دارالفکر، الدرالمختار مع ردالمحتار، جلد 2،صفحہ 57، دارالمعرفہ)

   تبیین الحقائق میں ہے: ”و أما بقية السنن فإن أمكنه أن يأتي بها قبل أن يركع الإمام أتى بها خارج المسجد شرع فی الفرض معہ لانہ امکنہ احراز الفضیلتین و إن خاف فوت ركعة شرع معه بخلاف سنۃ الفجر“ ترجمہ:(فجر کی سنتوں کے علاوہ) باقی سنتوں کا حکم یہ ہے کہ امام کے رکوع میں جانے سے پہلے پڑھ لینا ممکن ہو تو خارج مسجد ان سنتوں کو پڑھے  پھر فرض پڑھنے کیلئے امام کے ساتھ شامل ہوجائے کیونکہ   دونوں فضیلتوں  کو حاصل  کرنا ممکن ہے اور اگر ایک رکعت بھی  فوت ہونے کا  اندیشہ ہے تو امام کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردے برخلاف سنت فجر کے۔(تبیین الحقائق، جلد 1، صفحہ 183، مطبعہ کبریٰ امیریہ)

    فجر کی سنتوں کے حوالے سے خلاصۃ الفتاوی میں ہے: ’’رجل انتھی الی الامام و الناس فی صلوۃ الفجر ان رجا ان یدرک رکعۃ فی الجماعۃ یاتی برکعتی الفجر عند باب المسجد و ان لم یمکن یاتی بھما فی المسجد الشتوی ان کان الامام فی الصیفی و ان کان الامام فی الشتوی ھو یاتی فی الصیفی و ان کان المسجد واحدا یقف فی ناحیۃ المسجد‘‘ ترجمہ: ایک آدمی مسجد میں پہنچا، امام اور لوگ نماز فجر ادا کر رہے تھے اب اگر آنے والا شخص امید رکھتا ہے کہ اسے ایک رکعت جماعت کے ساتھ مل جائے گی تو وہ مسجد کے دروازہ کے پاس دو  سنتیں  ادا کرے، اور اگر  وہاں ممکن نہ ہو مسجد شتوی (سردیوں والے حصے ) میں دو رکعات ادا کرے، جب امام صیفی مسجد (گرمیوں والے حصّے) میں ہو اور اگر امام شتوی مسجد میں ہو تو یہ صیفی میں پڑھے۔  اور اگر مسجد  کاایک ہی حصہ  ہو تو مسجد کے ایک گوشے میں ادا کرے۔(خلاصۃ الفتاوی، جلد 1، کتاب الصلاۃ، جنس آخر  فی السنن، صفحہ 62، مطبوعہ کوئٹہ)

   فجر کی سنت صف کے قریب ادا کرنے کے مکروہ ہونے کے حوالے سے رد المحتار میں ہے: ’’أشدها كراهة أن يصليها مخالطا للصف مخالفا للجماعة‘‘ ترجمہ:  سخت مکروہ ہے  کہ ان دو رکعتوں کو صف کے متصل کھڑا  ہو کر ادا      کرے وہ اس صورت میں جماعت کی مخالفت کرنے والا ہے۔(رد المحتار، جلد 2،صفحہ 617، مطبوعہ دار المعرفۃ، بیروت)

    فجر کی سنت قبلیہ رہ جائیں تو ان کی ادائیگی کے حوالے سے  فتاوی رضویہ میں ہے: ”سنت فجر کہ تنہا فوت ہوئیں یعنی فرض پڑھ لئے،سنتیں رہ گئیں، ان کی قضا کرے تو بعد بلندی آفتاب پیش از نصف النہار الشرعی کرے۔طلوع شمس سے پہلے ان کی قضا ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک ممنوع و ناجائز ہے۔(فتاوی رضویہ جلد 5، صفحہ 366، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ظہر کی سنت قبلیہ رہ جائیں تو کب پڑھی جائیں اس حوالے سے فتاویٰ امجدیہ میں    ہے :’’ظہر کی سنتیں اگرچہ بعد فرض پڑھ لے گا مگر بلا عذر اس کو اس کی جگہ سے ہٹانا بھی برا ہے کہ سنت قبلیہ میں اصل سنت یہی ہے کہ وہ فرض سے قبل پڑھی جائے۔“(فتاوی امجدیہ، ج1، ص200، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں  :’’ ظہر کی پہلی چار سنّتیں   جو فرض سے پہلے نہ پڑھی ہوں   تو بعدِ فرض بلکہ مذہبِ ارجح  پر بعد  (دو رکعت)  سنت بعدیہ کے پڑھیں   بشرطیکہ ہنوز (یعنی ابھی)  وقتِ ظہر باقی ہو۔“(فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 148، رضا فاؤنڈیشن لاھور)

   عصر اور عشاء کی سنت قبلیہ چھوٹ جائیں تو اب ان کی ادائیگی بطور سنت کے نہیں ہوسکتی کیونکہ سنت سے متعلق ضابطہ یہی ہے کہ اس کی قضا نہیں کی جائے گی، البتہ نص کی وجہ سےصرف فجر کی سنت کی قضا اسی دن زوال سے پہلے تک اور ظہر کی سنن قبلیہ کی قضا ظہر کے فرض کے بعد ظہر کا وقت ختم ہونے سے پہلے تک کی جاتی ہے اس کے علاوہ کسی سنت کی قضاء نہیں ہے البتہ عشاء سے پہلے کی سنتیں اگر فرضوں کے بعد ادا کیں تو وہ بطور مستحب ادا ہوں گی، اور عصر کی سنتوں کو فرض کے بعد ادا کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ  عصر کے بعد نفل ادا نہیں کیے جاسکتے۔

   ہدایہ میں ہے :”الأصل في السنة أن لا تقضى لاختصاص القضاء بالواجب، و الحديث ورد في قضائهما تبعا للفرض“ترجمہ: ضابطہ یہ ہے کہ سنت کی  قضا نہیں ہے  کیونکہ قضا واجب کے ساتھ خاص ہے اور ظہر اور فجر کی سنتیں جب فرض کے تابع ہوکر رہ جائیں تو صرف حدیث کی وجہ سے ان کی قضا ہے۔(ھدایہ مع البنایہ، جلد 2، صفحہ 574، دارالکتب العلمیہ)

   اس کو علامہ ابن ہمام رحمۃا للہ علیہ نے محققین کا مذہب قرار دیا ہے۔(فتح القدیر جلد 1، صفحہ 496، دارالکتب العلمیہ)

   اس قاعدے کی تائید کرتے ہوئے علامہ  شامی رحمۃاللہ علیہ   فتح القدير كے حوالے سے فرماتے ہیں :”لان قضاء ھما ثبت بالنص علی خلاف القیاس فیبقی ما وراءا لنص علی العدم کما صرح بہ فی الفتح حتی لو ورد نص فی قضاء المندوب نقول بہ“ ترجمہ: کیونکہ  فجر اور ظہر کی سنتوں کی قضاخلاف قیاس نص کے ذریعے ثابت ہے لہٰذا جس پر نص نہیں ہے وہ اپنی حالت پر  باقی رہے گی جیسا کہ فتح القدیر میں بھی اس کی صراحت ہے حتٰی کہ اگر نص مستحب  کی قضا میں آتی تو ہم اس کی قضا کے بھی قائل ہوتے۔(ردالمحتار، جلد 2، صفحہ 621، مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت)

   باقی سنتوں  کا حکم بیان کرنے کے بعد عصر وعشاء سے پہلے والی سنت قبلیہ کی قضا کے متعلق علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”لم یبق من النوافل القبلیۃ الا سنۃ العصر و  من المعلوم انھا لاتقضی لکراھۃ التنفل بعد صلاۃ العصر و کذا سنۃ العشاء لکن  لا تقضی لانھا مندوبۃ ۔۔۔۔نعم لوقضاھا لاتکون مکروھۃ بل تقع  نفلامستحبا، لاعلی انھا ھی التی فاتت عن محلھا“ ترجمہ: نوافلِ قبلیہ میں سےصرف سنتِ عصر باقی رہ گئی اور یہ بات معلوم ہے کہ اس کی قضا نہیں کی جائیں گی کیونکہ نمازِ عصر کے بعد نفل پڑھنا مکروہ  ہے۔ اسی طرح عشاء کی سنتوں کا   حکم ہے کہ ان کی قضا  بھی نہیں ہے کیونکہ یہ بھی مستحب ہیں،(چونکہ عشاء کے  بعد نفل پڑھنا ممنوع نہیں  اسی وجہ سے) اگر کسی نے عشاء کی سنتوں کی قضاء کی تو مکروہ نہیں ہے لیکن وہ نفل مستحبہ کے طور پر ادا ہونگی نہ کہ اصل سنتیں جو فرضوں سے پہلے رہ گئی تھی وہ ادا ہونگی۔(ردالمحتار، جلد 2،صفحہ 621، مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت)

   عشاء سے پہلے والی سنتوں کے متعلق  امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاویٰ رضویہ میں فرماتے ہیں:’’یہ سنتیں اگر فوت ہوجائیں تو ان کی قضا نہیں، لیکن اگر کوئی بعد دو سنت بعدیہ کے پڑھے تو کچھ ممانعت نہیں۔ ہاں اس شخص سے وہ سنن مستحبہ ادا نہ ہوں گی جو عشا سے پہلے پڑھی جاتی تھیں بلکہ ایک نفل نماز مستحب ہو گی۔“(فتاوی رضویہ جلد 8،صفحہ 146،رضافاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم