Jo Shakhs Darhi Mundwata Ho Iss Ki Azan Ka Hukum

 

جو شخص داڑھی منڈواتا ہو، اس کی اذان کا حکم؟

مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1930

تاریخ اجراء:15ربیع الاول1446ھ/20ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ایک ایسا شخص ہے جو داڑھی منڈواتا اور اذان دیتا ہے ایسے شخص کی اذان کا حکم شریعت میں کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اذان شعائر اسلام میں سے ہے تو یہ ایک اہم اور عظمت والا کام ہے۔اس لئے فقہائے کرام رحمۃ اللہ علیہم فرماتےہیں مستحب یہ ہے کہ اذان دینے والا  شخص نیک ،صالح ،پرہیز گار ہو لہٰذااذا ن دینے کے لیے ایسے ہی شخص  کو مقرر کیا جائے جبکہ داڑھی منڈوانا یا ایک مٹھی سے کم  کر دینا، ناجائز و حرام ہے،ایسا کرنے والا شخص اعلانیہ گناہ کرنے والا ہے اور جوبار بار  اعلانیہ گناہ کرے وہ فاسقِ معلن ہے اور فاسق معلن کی اذان مکروہ ہے،لہٰذا اگر ایسا شخص اذان کہہ دے تو تو اگرچہ اذان کا اعادہ  لازم و ضروری نہیں لیکن مستحب  ضرور ہے کہ کوئی نیک شخص دوبارہ اذان کہے،البتہ اقامت  کا اعادہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ اقامت کا اعادہ مشروع نہیں۔

   حدیث پاک میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ  واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”لیؤذن لکم خیارکم ولیؤمکم قراءکم“تم میں سےبہترین لوگ اذان دیں اور اور تمہاری امامت قراءحضرات کریں ۔(سنن ابو داؤد ،جلد 1،صفحہ 201 ،حدیث:590، بیروت)

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے :”وینبغی أن یکون المؤذن رجلا عاقلا صالحا تقیا عالما بالسنۃکذا فی النھایۃ وینبغی أن یکون مھیبا ویتفقد أحوال الناس ویزجر المتخلفین عن الجماعات کذا فی القنیۃ“ یعنی مستحب  یہ ہے کہ اذان دینے والامرد، عاقل، صالح، پرہیزگار،سنت کا عالم  ہو ،ایسے ہی نہایہ میں ہے اور قنیہ میں ہے کہ ذی وجاہت لوگوں کے احوال کا نگران اور جو جماعت سے رہ جانے والے ہوں ان کو زجر کرنے والا ہو۔ (فتاوی ہندیۃ،جلد1، صفحہ 53، کوئٹہ)

   سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام  احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” فاسق کی اذان اگرچہ اقامت شعار کا کام دے مگراعلام کہ اس کا بڑا کام ہے اس سے حاصل نہیں ہوتا نہ فاسق کی اذان پروقت روزہ و نماز میں اعتماد جائز ولہٰذا مندوب ہے کہ اگر فاسق نے اذا ن دی ہو تو اس پرقناعت نہ کریں بلکہ دوبارہ مسلمان متقی پھر اذان دے۔“ (فتاوی رضویہ،ج5،ص376رضا فاؤنڈیشن لاہور )

   بہارشریعت میں ہے:”خنثیٰ و فاسِق اگرچہ عالِم ہی ہو اور نشہ والے اور پاگل اور نا سمجھ بچّے اور جنب کی اَذان مکروہ ہے، ان سب کی اَذان کا اعادہ کیا جائے۔“ (بہارشریعت،ج1،ص 466،مکتبہ المدینہ،کراچی)

                  اسی میں ہے:”اَذان کی تکرار مشروع ہے اور اِقامت دوبار نہیں۔“(بہارشریعت ،جلد 1، صفحہ 471،مکتبہ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم