جمعہ کے دن سفر کرنے والے کی نماز

جمعہ کے دن سفر کرنے کا اہم مسئلہ

دارالافتاء اھلسنت)دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کوئی شخص جمعہ کے دن جمعہ کا وقت شروع ہونے کے بعد شرعی سفر پر نکلا اور جس وقت نکلا اس وقت جمعہ کی جماعت کا وقت نہیں تھا ،اس لئے اس نے جمعہ کی نماز ادا نہیں کی اورشہر سے نکلنے کے بعد  دورانِ سفر اس کے لئے جمعہ کی ادائیگی بھی ممکن نہیں، ایسی صورت میں وہ سفر کے دوران ظہر کی نماز مکمل پڑھے گا یا قصر ادا کرے گا؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین رہے کہ  خاص جمعہ کے دن سفر پر روانہ ہونے کے متعلق حکمِ شرع یہ ہے کہ  کوئی شخص اگر جمعہ کے دن شہر میں مقیم  ہےاور وہ جمعہ کا وقت شروع ہوجانے کے بعدجمعہ پڑھے بغیر سفرپرروانہ ہوجاتا ہے ،تو وہ گناہ گار ہوگا ، ہاں اگرجمعہ کا دن داخل ہونے سے پہلے روانہ ہوایا خاص جمعہ کے دن جمعہ کا وقت شروع ہونے سے پہلے شہر کی آبادی سے بھی نکل گیا ، تو اس میں شرعی اعتبار سے کوئی حرج نہیں۔

پوچھی گئی صورت میں جب اس  شخص کو اپنے شہر ہی میں جمعہ کا وقت ہوگیا تھا، تو اس پر لازم تھا کہ  جمعہ کی ادائیگی کے بعد سفر کے لئے نکلتا،لیکن وہ شخص  جمعہ کی نماز ادا کئے بغیر سفر پر چلا گیا، تو وہ شخص ضرور گناہ گار ہوا، اس پر اپنے اس عمل سے توبہ لازم ہے۔

سفرِ شرعی یعنی 92 کلو میٹر یا اس سے زیادہ کی مسافت   کے ارادے سے شہر کی آبادی سے نکل جانے کے بعد جمعہ کی نماز میسر نہیں، تو اس صورت میں اس کے لئے حکم یہ ہے کہ  ظہر کی نماز ادا کرے اور چونکہ یہ مسافر ہے،اس لئے اس پر ظہر کی نماز میں قصر کرنایعنی فرض کی دو رکعتیں ادا کرنا واجب ہے ، جان بوجھ کرفرض کی چار رکعتیں پڑھنے کی صورت میں گناہ گار ہوگااور اس نماز کو دوبارہ پڑھنا واجب ہوگا جبکہ دوسری رکعت پر قعدہ کیا ہو اور اگر دوسری پر قعدہ بھی نہ کیا، تو اس صورت میں فرض ہی ادا نہ ہوئے  اور اس نماز کا دوبارہ پڑھنا فرض ہوگا۔

درمختار میں ہے:

”قال في شرح المنية : والصحيح أنه يكره السفر بعد الزوال قبل أن يصليها ولا يكره قبل الزوال “

یعنی شرح منیہ میں فرمایا :صحیح یہ ہے کہ بعدِ زوال جمعہ کی نماز پڑھنے سے پہلے سفر مکروہ ہے اور زوال سے پہلے مکروہ نہیں۔   (الدر المختار مع رد المحتار، جلد 3،صفحہ 44، مطبوعہ کوئٹہ)

خاص جمعہ کے دن سفر کر کے شہر سے باہر چلے جانے والے شخص کے متعلق امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا، تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نےارشاد فرمایا :”اگر وہ ٹھیک دوپہر ہونے سے پہلے شہر کی آبادی سے نکل جاتا ہے، تو اس پر اصلاً کچھ الزام نہیں اور اگر اسے شہر ہی میں وقتِ جمعہ ہوجاتا ہے، اس کے بعد بے پڑھے چلاجاتا ہے، تو ضرور گنہگار ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد8،صفحہ459،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”فرض المسافر فی الرباعیۃ رکعتان کذا فی الھدایۃ والقصر واجب عندنا کذا فی الخلاصۃ“

یعنی چار رکعت والی نماز میں مسافر پر دو رکعتیں فرض ہیں ایسا ہی ہدایہ میں ہے اور قصر ہمارے نزدیک واجب ہے جیسا کہ خلاصہ میں ہے۔(فتاوی ھندیہ، جلد1، صفحہ 139، مطبوعہ مصر)

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جس پر شرعاً قصر ہے اور اس نے جہلاً پوری پڑھی ،اس پر مواخذہ ہے اور اس نماز کا پھیرنا واجب۔“(فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 270، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

بہارِ شریعت میں ہے:”مسافر پر واجب ہے کہ نماز میں قصر کرے یعنی چار رکعت والے فرض کو دو پڑھے ، اس کے حق میں دو ہی رکعتیں پوری نماز ہے اور قصداً چار پڑھیں اور دو پر قعدہ کیا تو فرض ادا ہوگئے اور پچھلی دو رکعتیں نفل ہوئيں مگر گنہگار و مستحق نار ہوا کہ واجب ترک کیا لہٰذا تو بہ کرے اور دو رکعت پر قعدہ نہ کیا تو فرض ادا نہ ہوئے اور وہ نماز نفل ہوگئی۔“ (بھارِ شریعت، جلد1، صفحہ 743، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13735

تاریخ اجراء:06 رمضان المبارک 1446 ھ/07 مارچ 2025 ء