
مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3597
تاریخ اجراء:18شعبان المعظم 1446ھ/17فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
سوال یہ ہے کہ جمعہ کی تقریر ہو رہی ہو اور خطیب کے سامنے کی صفوں میں جگہ ہو، اور پیچھے کی صفوں میں لوگ بیٹھے ہوں، تو پیچھے سے آنے والا شخص سامنے کی صف میں جا کر بیٹھ سکتا ہے؟اگر یہی معاملہ خطبہ کا ہو تو کیا حکم ہوگا؟ رہنمائی فرما دیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں جمعہ کے خطبہ کے دوران تو بعد میں آنے والے کو اگلی صف میں آنے کی شرعا اجازت نہیں،مسجد میں جہاں پہنچا ہے،وہیں بیٹھ جائےاگرچہ اگلی صف میں جگہ باقی ہو کیونکہ شرعی طور پر خطبہ جمعہ کے دوران خاموش رہنااور اسے غور سے سننا واجب ہوتا ہے ،اس دوران چلنا پھرنا ،کھانا ،پینا،بات چیت کرناوغیرہ الغرض ہر وہ کام جو خطبہ سننے میں مُخِل(خلل ڈالنے ولا) ہو، وہ حرام ہےاگرچہ فی نفسہ وہ نیکی کا کام ہو،یہاں تک کہ گردن پھیر کر اِدھر اُدھر دیکھنے کو بھی فقہائے کرام نے سننے میں مخل (خلل ڈالنے ولا) شمار کیااور ناجائز بتایا ہے۔
البتہ! خطبہ سے پہلے علاقہ کی زبان میں جو وعظ ہوتا ہے ، اس دوران اگر اگلی صف میں جگہ ہو ، لوگوں کی گردنیں بھی نہ پھلانگنی پڑیں تو پھر اگلی صف میں آ سکتا ہے ، اور اگر آگے آنے کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگنی پڑیں تو ایسی صورت میں اس کا اگلی صف میں آنا شرعا جائزنہیں ہو گا۔
در مختار میں ہے"فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف بل يجب عليه أن يستمع ويسكت " ترجمہ :پس خطبہ کے دوران کھانا پینا اور کلام کرنا اگرچہ تسبیح ہو اور سلام کاجواب دینا اور نیکی کی دعوت دینا حرام ہے، خطبہ سننے والے پر واجب ہے کہ وہ غور سے سنے اور خاموش رہے ۔(در مختار مع رد المحتار،ج 2،ص 159،دار الفکر،بیروت)
حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے"یکرہ لمستمع الخطبۃ ما یکرہ فی الصلاۃ من أکل وشرب وعبث والتفات ونحو ذلک"ترجمہ:خطبہ سننے والے کے لیے ہر وہ بات مکروہ ہے جو نماز میں مکروہ ہے مثلاً کھانا پینا، عبث فعل اور کسی طرف متوجہ ہونا وغیرہ ۔(حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی،باب الجمعۃ،ج1،ص 519،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے"وذكر الفقيه أبو جعفر عن أصحابنا رحمهم الله تعالى أنه لا بأس بالتخطي ما لم يأخذ الإمام في الخطبة۔۔۔ وأما من جاء والإمام يخطب فعليه أن يستقر في موضعه من المسجد؛ لأن مشيه وتقدمه عمل في حالة الخطبة ۔ كذا في فتاوى قاضي خان“ترجمہ:فقیہ ابو جعفر نے ہمارے اصحاب رحمھم اللہ سے ذکر کیا کہ جب تک امام خطبہ نہ شروع کرے ،چلنے میں کوئی حرج نہیں ،اور جب کوئی شخص اس حال میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اس پر لازم ہے کہ مسجد میں اپنی جگہ پر ٹھہر جائے کیونکہ اب چلنے اور آگے بڑھنے کا عمل حالت خطبہ میں ہوگا،جیسا کہ فتاوی قاضی خان میں ہے۔ (فتاوی ہندیہ ،ج 1،ص147- 148،دار الفکر،بیروت)
اعلی حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں : ”بحالت خطبہ چلنا حرام ہے۔“ (فتاوی رضویہ ،ج 8،ص 333،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
مزید فتاوی رضویہ میں ہے"چلنا تو بڑی چیز ہے انھیں عبارات علماء میں تصریح گزری کہ خطبہ ہوتے میں ایک گھونٹ پانی پینا حرام ، کسی طرف گردن پھیر کر دیکھنا حرام، تو وہ حرکت مذکورہ کس درجہ سخت حرام ہوگی۔" (فتاوی رضویہ،ج 8،ص 334،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آگے جانا ،جائز نہیں، سنن ابن ماجہ میں ہے:”عن جابر بن عبد اللہ، أن رجلا دخل المسجد يوم الجمعة، ورسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يخطب، فجعل يتخطى الناس، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم: اجلس، فقد آذيت وآنيت“ ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے ،تو وہ(آگے آنے کے لیے )لوگوں کی گردنیں پھلانگنے لگا ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہیں) بیٹھ جاؤ، تم نے لوگوں کو تکلیف دی اور آنے میں تاخیر کی۔(سنن ابن ماجہ،ج1،ص354،حدیث نمبر 1115،طبع دار احیاء الکتب العربیہ)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:" امام سے قریب ہونا افضل ہے مگر یہ جائز نہیں کہ امام سے قریب ہونے کے لئے لوگوں کی گردنیں پھلانگے، البتہ اگر امام ابھی خطبہ کو نہیں گیا ہے اور آگے جگہ باقی ہے تو آگے جاسکتا ہے اور خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا تو مسجد کے کنارے ہی بیٹھ جائے۔" (بہار شریعت ، جلد1،حصہ چہارم، صفحہ768،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم