وضو کے بعد جوتوں والی جگہ سے گزر کر مسجد جانا کیسا؟

وضو کے بعد جوتوں والی جگہ سے ننگے پاؤں گزر کر مسجدمیں جانا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

ہماری مسجد میں نماز کے لیے جائیں تو ہم جوتے اُتار دیتے ہیں، پھر وضو کرتے ہیں اور نماز کے ہال کی طرف چلتے ہیں۔ مگر راستے میں اُس جگہ سے گزرنا پڑتا ہے جہاں جوتے رکھے جاتے ہیں۔ کیا اس سے ہمارے پاؤں ناپاک (نجس) ہو جاتے ہیں یا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا نماز گاہ بھی ناپاک ہو جاتی ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

محض جوتے رکھنے والی جگہ پر چلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا،خواہ اس جگہ پر نجاست ہو یا نہ ہو، مٹی کے ذرے ہوں یا نہ ہوں۔ جہاں تک پاؤں ناپاک ہونے کی بات ہے تو اگر اس جگہ پر کوئی نجاست موجود ہو،جو پاؤں کو لگے تو اب پاؤں ناپاک ہو گا اور اسے پاک کرنا ہو گا، بغیر پاک کیے اگر مسجد میں چلے گئے اور نجاست پاؤں سے چھوٹ کر زمین یا کارپٹ وغیرہ پر لگ گئی تو وہ جگہ بھی ناپاک ہو جائے گی۔اور اگر اس جگہ پر کوئی نجاست موجود نہ ہو تو پاؤں ناپاک نہیں ہوں گے۔

یہ حکم پاکی و ناپاکی کے اعتبار سے تھا جہاں تک بات ہے اس انداز سے مسجد میں جانے کی تو یاد رکھیں کہ جس طرح مسجد کو ناپاکی سے بچانا ضروری ہے، اسی طرح مسجد کوآلودگی سےبھی بچانا لازم ہے، لہذا جوتے اتارنے کی جگہ اگر بالکل صاف نہیں، وہاں مٹی کے ذرے وغیرہ ہوتے ہیں، جو پاؤں کو لگ کر مسجد کے فرش یا صفوں کو خراب کریں گے تو ایسی صورت میں پاؤں صاف کر کے ہی مسجد میں داخل ہوں۔

مسجد کو پاک و صاف رکھنے کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ

 ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لیے۔ (القرآن الکریم، پارہ1، سورۃ البقرۃ، آیت: 125)

حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ایک حدیث میں ہے

امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ببناء المساجد فی الدور و ان تنظف و تطیب

ترجمہ: اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں پاک صاف اور معطر رکھنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، باب اتخاذ المساجد فی الدور، جلد 1، صفحہ 124، حدیث: 455، مطبوعہ: بیروت)

البحر الرائق میں ہے

تنظیف المسجد واجب

 ترجمہ: مسجد کو صاف ستھرا رکھنا واجب ہے۔ (البحر الرائق، جلد 2، باب الاعتكاف، صفحہ 327، دار الکتاب الاسلامی، بیروت)

مسجد میں پاک چیز پھینکنے کی ممانعت کی وجہ کے متعلق حاشیہ طحطاوی علی الدرمیں ہے

لوجوب صیانتہ عما یقذرہ و ان کان طاھراً

ترجمہ: اس وجہ سے کہ مسجد کو ہر گھن والی چیز سے بچانا واجب ہے اگرچہ وہ چیز پاک ہی کیوں نہ ہو۔ (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ 76، مطبوعہ: کوئٹہ)

 بہارِ شریعت میں ہے ”مسجد میں وضو کرنا اور کُلی کرنا اور مسجد کی دیواروں یا چٹائیوں پر یا چٹائیوں کے نیچے تھوکنا اور ناک سنکنا ممنوع ہے۔۔۔ مسجد کو ہر گھن کی چیز سے بچانا ضروری ہے۔“ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 646، 647، مکتبۃا لمدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4402

تاریخ اجراء: 12 جمادی الاولٰی 1447ھ / 04 نومبر 2025ء