کمزور نظر والے کا امامت کروانا کیسا؟

کمزور نظر والے کا امامت کروانا

مجیب:مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-3560

تاریخ اجراء:13شعبان المعظم1446ھ/12فروری2025ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میرے اندار امامت کی تمام شرائط پوری ہیں، لیکن میری نظر کمزور ہے، تو کیا میں امامت کروا سکتا ہوں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر آپ میں امامت کی تمام شرائط  و لوازمات موجود ہیں، تو آپ امامت کروا سکتے ہیں، محض نظر کمزور ہونے کی وجہ سے امامت کروانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ، بلکہ فقہائے کرام نے یہاں تک فرمایا ہے کہ   اگر کوئی شخص  نابینا ہو، اسےبالکل نظر نہ آتا ہو اور  امامت کا اہل ہو، تو اس کے پیچھے بھی نماز ہو جاتی ہے، لیکن چونکہ عام طور پر نابینا شخص پاکی ناپاکی کا خیال نہیں رکھ سکتااور نہ ہی خود قبلہ کی سمت معلوم کرکے نماز پڑھ سکتا ہے،بلکہ ان امور میں دوسروں کا محتاج ہوتا ہے، اس لئے اس کے متعلق فرمایا کہ اگراس سےبڑھ کریا اس کے برابرطہارت ونمازکے مسائل کا علم رکھنے والا بینا (آنکھوں والا) شخص موجود ہو، جو امامت کا اہل ہو، تونابینا شخص کی امامت مکروہِ تنزیہی ہے یعنی جائز تو ہے، البتہ بچنا بہتر ہے، جبکہ  اگرنابینا میں امامت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں اور وہاں اس سے زیادہ مسائل نماز و طہارت جاننے والا اور صحیح قراء ت کرنے والاکوئی اور موجود نہیں ، تو اس کا امامت کرانا بلا کراہت جائز ہے، بلکہ اسے ہی امام بنانا بہترہے، یہ تفصیل تو نابینا کے متعلق ہے، جس کی نظر موجود ہو، اگرچہ کمزور ہو، توعموماً ایسا شخص  پاکی کا خیال رکھنے  اور سمتِ قبلہ کے معاملے میں کسی غیر کا محتاج نہیں ہوتا، تواس کے حق میں اس لحاظ سے مکروہ تنزیہی والی صورت بھی نہیں ہوگی۔

   تنویرالابصار میں ہے:”(یکرہ)تنزیھا(امامۃ عبد)۔۔۔۔( واعمیٰ)“ ترجمہ: غلام۔۔۔ ۔ اور اندھے کی امامت مکروہِ تنزیہی ہے۔(تنویر الابصار مع الدر، ج1، ص559-560، دار الفکر، بیروت)

   علامہ ابراہیم حلبی علیہ الرحمۃ اس مسئلے کی علت بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ”لانہ لایری النجاسۃ لیتحرز عنھا وقد ینحرف عن القبلۃ“ ترجمہ: نابینا کے پیچھے نماز اس لئے مکروہ ہےکہ وہ نجاست نہیں دیکھ سکتا کہ اُس سے بچ سکے اور کبھی کبھار توقبلے ہی سے منحرف ہوجاتا ہے۔(حلبی کبیری، ص443، مطبوعہ، کوئٹہ)

   صدرالشریعۃ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”نابینا کی امامت مکروہِ تنزیہی ہے، جبکہ دوسرے لوگ مسائل طہارت ونماز میں اس سے زائد یا اس کے برابر ہوں اور اگر سب سے زائد یہی علم رکھتا ہو، تو اس کی امامت  میں اصلاً کراہت نہیں، بلکہ اس صورت میں اسی کو امام بنانا بہتر ہے۔“(فتاوی امجدیہ، ج1، ص107، مکتبہ رضویہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم