
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-8984
تاریخ اجراء:02محرم الحرام 1446ھ /09جولائی 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ کیا اذان دیتے ہوئے کانوں میں انگلیاں رکھنا ضروری ہے؟ کیونکہ ہماری مسجد کے نائب امام بعض اوقات اذان دیتے ہوئے کانوں میں انگلیاں نہیں رکھتے، جبکہ اُن کے اِس انداز کے سبب مسجد کے دو نمازیوں کو اعتراض ہے اور وہ تقاضا کرتے ہیں کہ انگلیاں رکھ کر ہی اذان پڑھی جائے کہ ہم ہمیشہ سے اِسی طریقے کے مطابق دیتے اور سنتے آئے ہیں۔ اِس مسئلہ کے متعلق ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
اذان دیتے ہوئے مؤذِّن کا اپنے کانوں میں انگلیاں رکھنا ”مستحب“ہے، البتہ اگر کوئی انگلیاں رکھے بغیر اذان دیدے، تو اذان ہو جائے گی، نیز انگلیاں رکھ کر اذان دینے میں حکمت یہ ہے کہ اِس طرح آواز زیادہ بلند ہو جاتی ہے، اب جبکہ مائیک پر اذان دی جاتی ہے، تو اگرچہ وہ حکمت موجود نہیں، مگر جو طریقہ ہمیشہ سے چلتا آرہا ہو، اُس کا خلاف کرنا، بہتر نہیں، بالخصوص اگر اُس طریقے سے ہٹنے میں اختلافات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر عمل کرنا ہی بہتر ہے، لہٰذ اپوچھی گئی صورت میں نائب امام صاحب کو چاہیے کہ طریقہ متوارثہ کے مطابق کانوں میں انگلیاں رکھ کر اذان دیا کریں۔
”تنویر الابصار ودرالمختار“ کا مشترک کلام ہے:(ويجعل) ندبا (أصبعيه في) صماخ (أذنيه) فأذانه بدونه حسن، وبه أحسن‘‘ترجمہ: مؤذِّن استحبابی طور پر اپنی دونوں انگلیوں کو کانوں کے سوراخوں پر رکھے، البتہ ایسا کیے بغیر بھی اذان اچھی ہے، لیکن اگر انگلیاں رکھ کر اذان دی جائے تو پھر احسن اور بہت اچھا عمل ہے۔(تنویر الابصار و درالمختار، جلد02،باب الاذان، صفحہ589، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
اِس کے تحت علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:1252ھ/1836ء) نے لکھا:’’لقوله صلى اللہ عليه وسلم لبلال رضي اللہ عنه «اجعل أصبعيك في أذنيك فإنه أرفع لصوتك» وإن جعل يديه على أذنيه فحسن؛ لأن أبا محذورة رضي اللہ عنه ضم أصابعه الأربعة ووضعها على أذنيه وكذا إحدى يديه۔۔۔ والأمر أي في الحديث المذكور للندب بقرينة التعليل، فلذا لو لم يفعل كان حسنا‘‘ ترجمہ:کیونکہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے لیے فرمان تھا: اپنی دونوں انگلیوں کو کانوں میں رکھ لو کہ یہ عمل تمہاری آواز اونچی کرنے میں مددگار ہو گا“ اور اگر ہاتھوں کو کانوں پر رکھ دیا جائے تو یہ بھی اچھا ہے، کیونکہ حضرت ابومحذورہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اپنی چاروں انگلیوں کو ملاتے اور اپنے کانوں پر رکھ لیتے، یونہی صرف ایک ہاتھ کو بھی رکھ لینا درست ہے۔ اور حدیثِ بلال میں دیا جانے والا حکم بیان علت کے قرینہ کے سبب استحباب کے لیے ہے، لہذا اگر کوئی ایسا نہ بھی کرے، تو پھر بھی وہ طریقہِ اذان بہتر اور اچھا ہے۔(ردالمحتار مع درالمختار، جلد02، باب الاذان، صفحہ589، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
امامِ اہلِ سنَّت، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) نے لکھا:”اذان میں انگلیاں کان میں رکھنا مسنون ومستحب ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، جلد05،صفحہ373،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم