
دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ نماز کے کچھ واجبات ایسے بھی ہیں جن کو بھولنے سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، تو وہ واجبات کون سے ہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ
نماز کے متعلق دو طرح کے واجبات ہوتے ہیں: (۱) واجبات اصلیہ: جن کا وجوب تکبیر تحریمہ کے سبب ہوتا ہے اور یہ نماز کے اندر اس کی تکمیل کے لیے ضروری ہوتے ہیں کہ ان کے بغیر نماز کامل ہی نہیں ہوتی۔ (۲) واجبات خارجیہ: جن کا وجوب امر خارج کے سبب ہوتا ہے خواہ یہ نماز کے اندر ہوں یا باہر، در حقیقت یہ فی نفسہ مستقل واجب ہوتے ہیں، نہ کہ خاص نماز کے لیے۔
پس سجدۂ سہو نماز کے واجبات اصلیہ کو بھول کر ترک کرنے سے واجب ہوتا ہے جیسا کہ نمازِ وتر میں دعائے قنوت کو بھولے سے چھوڑ دینا؛ کیونکہ وتر کی تیسری رکعت میں دعائے قنوت کا پڑھنا نماز کے واجبات اصلیہ میں سے ہے۔ جبکہ واجبات خارجیہ کو بھول کر ترک کرنا سجدۂ سہو کا موجب نہیں ہوتا جیسا کہ نماز میں بھولے سے خلاف ترتیب قرآن پاک پڑھنا؛ کیونکہ قرآنی سورتوں میں ترتیب قائم رکھنا نماز کے واجبات اصلیہ میں سے نہیں بلکہ واجبات تلاوت میں سے ہے۔ یوں ہی جماعت اور ایام تشریق میں تکبیرات تشریق وغیرہ۔
ملک العلماء علامہ ابو بكر بن مسعود كاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 587ھ/ 1191ء) لکھتے ہیں:
فسبب وجوبه ترك الواجب الأصلي في الصلاة، أو تغييره أو تغيير فرض منها عن محله الأصلي ساهيا؛ لأن كل ذلك يوجب نقصانا في الصلاة فيجب جبره بالسجود
ترجمہ: پس سجدہ سہو کے واجب ہونے کا سبب نماز میں بھول کر واجبِ اصلی کا ترک کرنا، یا اس میں تبدیلی کرنا، یا نماز کے کسی فرض کو اس کے اصل مقام سے پھیر دینا ہے؛ کیونکہ یہ سب باتیں نماز میں نقص پیدا کرتی ہیں، پس اس کی تلافی سجدے کے ذریعے واجب ہوتی ہے۔ (البدائع الصنائع، کتاب الصلاة، فصل بيان سبب وجوب سجود السهو، جلد 1، صفحه 164، دار الكتب العلمية، بیروت)
علامہ زين الدين بن ابراہيم ابن نجیم مصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 970ھ/ 1562ء)لکھتے ہیں:
سببه ترك واجب من واجبات الصلاة الأصلية سهوا و هو المراد بقوله بترك واجب لا كل واجب
ترجمہ: سجدہ سہو کا سبب نماز کے واجبات اصلیہ میں سے کسی واجب کا سہواً ترک کرنا ہے، اور صاحب کنز الدقائق کے اس قول "واجب کو ترک کرنے سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے" سے یہی مراد ہے، نہ کہ ہر (طرح کا) واجب ترک کرنا۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاة، باب سجود السهو ، جلد 2، صفحه 101، دار الكتاب الإسلامي)
شیخ برہان الدین ابراہیم بن محمد حلبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 956ھ / 1549ء) لکھتے ہیں:
قال القاضي صدر الإسلام: وجوبه بشيء واحد و هو ترك الواجب، قال صاحب الذخيرة و هذا أجمع ما قيل فيه؛ لأن الوجوه كلها تخرج عليه
ترجمہ: قاضی صدر الاسلام نے فرمایا: سجدہ سہو کا وجوب ایک ہی چیز سے ہوتا ہے، اور وہ ہے واجب کو ترک کرنا۔ صاحبِ ذخیرہ نے فرمایا: یہی سب سے جامع قول ہے جو اس مسئلے کے متعلق کہا گیا ہے؛ کیونکہ تمام کی تمام صورتیں اس پر وارد ہو جاتی ہیں۔ (غنية المتملی، فصل فی سجود السهو، جلد 2، صفحه 400، مطبوعه یوپی ہند)
علامہ محمد عابد بن احمد سندی مدنی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1257ھ / 1841ء) لکھتے ہیں:
أي أجمع ما قيل في سبب وجوب السهو لأن سائر ما ذكره الفقهاء من اسباب ذلك داخل تحت قولنا "بترك واجب" أي من واجبات الصلاة الاصلية سهواً لا كل واجب فلو ترك ترتيب السور لا يلزمه شیئ مع کونه واجبا لأنها من واجبات نظم القرآن لا من واجبات الصلاة فتركها لا يوجب السجود
ترجمہ: یعنی وجوبِ سجدۂ سہو کے سبب کے بارے میں یہی سب سے جامع قول ہے، کیونکہ فقہائے کرام نے سجدۂ سہو کے واجب ہونے کے جو دیگر اسباب بیان کیے ہیں، وہ سب ہمارے اس قول کے تحت آ جاتے ہیں کہ واجب ترک کرنے کے ساتھ یعنی نماز کے واجبات اصلیہ میں سے کسی واجب کے بھول کر ترک کرنے سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، ہر (قسم کے) واجب کے ترک سے نہیں۔ پس اگر کسی نے سورتوں کی ترتیب کو ترک کیا، تو اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا، باوجود یہ کہ سورتوں میں ترتیب قائم رکھنا واجب ہے؛ کیونکہ یہ نظم قرآنی کے واجبات میں سے ہے، نہ کہ نماز کے واجبات میں سے، لہذا اس کا ترک سجدۂ سہو کو لازم نہیں کرتا۔ (طوالع الأنوار شرح الدر المختار، کتاب الصلاة، باب سجود السهو، جلد 2، صفحه 362، مخطوطه)
امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں: ”ترتیب الٹنے سے نماز کا اعادہ واجب ہو، نہ سجدہ سہو آئے۔ ہاں یہ فعل ناجائز ہے، اگر قصداً کرے گنہگار ہوگا ورنہ نہیں، اور اگر بعد کی سورت پڑھنا چاہتا تھا زبان سے اوپر کی سورت کا کوئی حرف نکل گیا تو اب اسی کو پڑھے، اگرچہ خلاف ترتیب ہوگا؛ کہ یہ اس نے قصداً نہ کیا اور اس کا حرف نکل جانے سے اس کا حق ہو گیا، کہ اب اسے چھوڑنا قصداً چھوڑنا ہوگا۔...
فی رد المحتار أنهم قالوا يجب الترتيب في سور القرآن، فلو قرأ منكوسا أثم لكن لا يلزمه سجود السهو لأن ذلك من واجبات القراءة لا من واجبات الصلاة كما ذكره في البحر في باب السهو
(رد المحتار میں ہے کہ فقہائے کرام نے فرمایا: قرآنی سورتوں میں ترتیب واجب ہے، تو اگر کسی نے خلاف ترتیب پڑھا تو وہ گنہگار ہوگا لیکن اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا؛ کیونکہ یہ واجبات قراءت میں سے ہے، نماز کے واجبات میں سے نہیں۔ جیسا کہ البحر الرائق کے باب السہو میں ہے)۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 357- 358، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سال وفات: 1367ھ/ 1948ء) لکھتے ہیں: ”واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے لیے سجدۂ سہو واجب ہے۔... کوئی ایسا واجب ترک ہوا جو واجباتِ نماز سے نہیں بلکہ اس کا وجوب امر خارج سے ہو تو سجدۂ سہو واجب نہیں مثلاً خلاف ترتیب قرآن مجید پڑھنا ترک واجب ہے، مگر موافق ترتیب پڑھنا واجبات تلاوت سے ہے واجبات نماز سے نہیں لہذا سجدۂ سہو نہیں۔“ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 4، صفحه 708- 709، مکتبة المدینہ، کراچی)
وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم
مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری
فتویٰ نمبر: FAM-724
تاریخ اجراء: 04 ذو القعدة الحرام 1446ھ / 2 مئی 2025ء