
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9116
تاریخ اجراء:26ربیع الاوَّل 1446ھ /01 اکتوبر 2024
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کےبارے میں کہ کرسی پر بیٹھنے والے کا رکوع حقیقی ہوتا ہے یا رکوع بالاشارہ؟ جالس علی الکرسی اور قاعد علی الارض کے رکوع کی کیفیت تو یکساں ہوتی ہے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
ایسا شخص کہ جو رکوع اور سجدے پر قادر نہ ہو اور اُسے شرعی اعتبار سے زمین یا کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی رخصت ہو، تو اگر وہ کرسی پر بیٹھ کر رکوع کرتے ہوئے اپنے سر اور کمر دونوں کو جھکائے، تو اُس کا رکوع ”حقیقی“ کہلائے گا۔ اِس رکوع کو ”رکوع بالاشارۃ“ نہیں قرار دیا جائے گا اور اگر صرف گردن کی حرکت کے ذریعے سر کو جھکائے، کمر میں جھکاؤ پیدا نہ کرے، تو یہ ”اشارے سے رکوع“ کہلائے گا۔
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 1252ھ / 1836ء) لکھتے ہیں: إن كان ركوعه بمجرد إيماء الرأس من غير انحناء وميل الظهر فهذا إيماء لا ركوع۔۔۔ و إن كان مع الانحناء كان ركوعا معتبرا۔ ترجمہ: اگر نمازی کا رکوع صرف سر کے اشارے پر مشتمل ہو اور اُس میں کمر کا جھکاؤ موجود نہ ہو، تو یہ رکوع کا اشارہ ہے، حقیقی رکوع نہیں۔ البتہ اگر کمر کا جھکاؤ بھی موجود ہو تو یہ معتبر اور حقیقی رکوع شمار ہو گا۔(ردالمحتار مع در مختار، جلد 04، باب صلاۃ المریض، صفحہ 538، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
رکوع کی تین کیفیات:
رکوع کی تین ممکنہ کیفیات ہیں۔ اُنہیں سمجھنے سے یہ مسئلہ بھی واضح ہو جائے گا کہ کرسی والے کا رکوع حقیقی ہوتا ہے یا اشارے سے۔
رکوع کے تین درجے ہیں۔
(1)صرف سر کو جھکانا اور کمر کو اپنی جگہ پر ہی رکھنا۔ اُس میں بالکل بھی خَم اور جھکاؤ پیدا نہ کرنا۔ یہ رکوع بالاشارہ ہے، حقیقی رکوع نہیں۔
علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے لکھا: حقيقة الإيماء طأطأة الرأس۔ ترجمہ: اشارے کی حقیقت یہ ہے کہ صرف سَر کو جھکایا جائے۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 04، باب صلاۃ المریض، صفحہ 535، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
دوسری جگہ لکھا: إن كان ركوعه بمجرد إيماء الرأس من غير انحناء و ميل الظهر فهذا إيماء لا ركوع۔ ترجمہ: اگر نمازی کا رکوع صرف سر کے اشارے پر مشتمل ہو اور اُس میں کمر کا جھکاؤ موجود نہ ہو، تو یہ رکوع کا اشارہ ہے، حقیقی رکوع نہیں۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 04، باب صلاۃ المریض، صفحہ 538، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
(2)سر کو جھکانا اور ساتھ معمولی سا کمر میں بھی آگے کی جانب جھکاؤ پیدا کرنا، مگر اُس جھکاؤ کے نتیجے میں نمازی کی پیشانی اُس کے گھٹنوں کے مقابل نہ ہو۔ یہ حقیقی رکوع ہے، رکوع کا اشارہ نہیں ہے۔ لیکن یہ طریقہ رکوع کا کامل طریقہ نہیں ہے۔
”حاشیۃ ابن عابدین“ میں ہے: إن كان مع الانحناء كان ركوعا معتبرا۔ ترجمہ: اگر رکوع کرتے ہوئے سر کے ساتھ کمر کا جھکاؤ بھی موجود ہو تو یہ معتبر اور حقیقی رکوع شمار ہو گا۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 04،باب صلاۃ المریض، صفحہ 538، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ / 1947ء) لکھتے ہیں: رکوع کے لیے صرف اشارہ نہ ہوا، بلکہ پیٹھ بھی جھکائی، تو صحیح ہے۔۔۔ ان شرائط کے پائے جانے کے بعد حقیقۃً رکوع و سجود پائے گئے، اشارہ سے پڑھنے والا اُسے نہ کہیں گے اور کھڑا ہو کر پڑھنے والا اس کی اِقتدا کر سکتا ہے۔(بھار شریعت، جلد 01، حصہ 04، صفحہ 722، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
(3)سر کو جھکانا اور ساتھ کمر کو بھی آگے کی جانب اِتنا جھکانا کہ اُس جھکاؤ کے نتیجے میں نمازی کی پیشانی اُس کے گھٹنوں کے مقابل ہو جائے۔ یہ حقیقی رکوع اور اُس کا کامل طریقہ ہے۔ یہ بدرجہ اَولی رکوع کا اشارہ نہیں ہے۔
”فتاوٰی شامی“ میں ہے: و لو كان يصلي قاعدا ينبغي أن يحاذي جبهته قدام ركبتيه ليحصل الركوع، قلت: و لعله محمول على تمام الركوع، و إلا فقد علمت حصوله بأصل طأطأة الرأس أي مع انحناء الظهر۔ ترجمہ: اگر کوئی شخص بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو، تو اسے چاہیے کہ (رکوع کرتے ہوئے اتنا جھکے) کہ اپنی پیشانی کو دونوں گھٹنوں کے مقابل لے آئے، تاکہ حقیقی رکوع ادا ہو جائے۔(علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:) میں کہتا ہوں: شاید یہ کلام کامل رکوع پر محمول ہو گا، ورنہ آپ جان چکے ہیں کہ حقیقی رکوع تو صرف سرجھکادینے سے یعنی ساتھ کچھ پیٹھ جھکانے سے ہی ادا ہو جاتا ہے۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 03، فرائض الصلاۃ، صفحہ 158، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات: 1340ھ/ 1921ء) سے سوال ہوا کہ نفل نماز بیٹھ کر ادا کریں،تو رکوع کس طرح ادا کریں؟ تو آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواب دیا: بیٹھ کر نما ز پڑھے، تو اس کا درجۂ کمال و طریقۂ اعتدال یہ ہے کہ پیشانی جھک کر گھٹنوں کے مقابل آجائے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 06، صفحہ 157، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
”رکوع“ کی حقیقت:
یاد رکھیے کہ ”رکوع“ در اصل ”طاطاۃ الراس“ یعنی سر جھکانے کا نام ہے۔ علامہ سدید الدین محمد بن محمد کاشْغَری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 860ھ/ 1455ء) لکھتےہیں: الرکوع و ھو طأطأة الرأس۔ترجمہ واضح ہے۔(مُنْیَۃ المُصلی مع حَلْبَۃ المُجَلِّی، جلد 02، صفحہ 58،مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
لیکن رکوع کی یہ کیفیت فقط اُسی کے حق میں قابلِ قبول ہے، جو صرف سَر کے اشارے سے نماز پڑھنے پر قدرت رکھتا ہو، لہذا اگر کوئی حقیقی سجدہ کرنے اور بیٹھ کر سر کے ساتھ کمر جھکانے پر قادر ہے، تو اُس کے لیے صرف سر کا اشارہ رکوع کا فرض ساقط کرنے کے لیے کافی نہیں، چنانچہ اِسی کتاب میں ہے: و مقتضی ھذا انہ اذا طأطأ راسہ و لم یحن ظھرہ اصلا مع قدرتہ علیہ لا یخرج عن عھدۃ فرض الرکوع۔ ترجمہ: اِس عبارت کا مقتضی یہ ہے کہ جب کوئی صرف سر جھکائے اور کمر میں بالکل بھی خم پیدا نہ کرے، حالانکہ جھکانے پر قادر تھا، تو اِس صورت میں وہ رکوع کا فرض ذمہ سے اتارنے میں کامیاب نہیں ہوا۔(حَلْبَۃ المُجَلِّی شرح مُنْیَۃ المُصلی، جلد02، صفحہ 58، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
اِسی لیے بعض فقہاء نے رکوع کا معنی بیان کرتے ہوئے ”طأطأة الرأس“ کے ساتھ ہی ”انحناء“ کی قید بھی لگائی ہے، جیسا کہ علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”شرح المنیۃ“ سے رکوع کا معنی نقل کرتے ہوئے لکھا: في شرح المنية: هو طأطأة الرأس أي خفضه، لكن مع انحناء الظهر لأنه هو المفهوم من موضوع اللغة۔ ترجمہ: ”شرح المنیۃ“ میں ہے: رکوع سر کو جھکانے کا نام ہے، لیکن یہ جھکاؤ کمر کے خَم کے ساتھ ہونا چاہیے، کیونکہ لغتِ عربیہ سے یہی معنی مفہوم ہوتا ہے۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 03،فرائض الصلاۃ، صفحہ 157، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
نوٹ:
جو شخص بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع کے لیے سر کے ساتھ کمر کو جھکاتے ہوئے رکوع کرے اور سجدے کا صرف اشارہ کرے، تو یہی کہا جائے گا کہ قیام اور سجدہ غیر حقیقی اور رکوع حقیقی طور پر ادا کیا گیا ہے۔
کتبِ فقہ میں ایسے جزئیات موجود ہیں کہ جو اِن تینوں اعمال یعنی قیام، رکوع اور سجود میں سے بعض کے حقیقی اور بقیہ کے غیر حقیقی طریقے سے ادا ہونے کو واضح کرتے اور اُنہیں جائز قرار دیتے ہیں، چنانچہ اِس کی فقہی مثال نیچے موجود ہے کہ ایک شخص کا رکوع حقیقی طریقے سے ادا ہو رہا ہے اور سجدہ اشارے سے درست ہے، چنانچہ ”فتاوٰی شامی“ میں ہے: رجل بحلقه خراج إن سجد سال و هو قادر على الركوع و القيام و القراءة يصلي قاعدا يومئ؛ و لو صلى قائما بركوع و قعد و أومأ بالسجود أجزأه، و الأول أفضل لأن القيام و الركوع لم يشرعا قربة بنفسهما، بل ليكونا و سيلتين إلى السجود۔ ترجمہ: ایسا شخص کہ جس کے حلق پر پھوڑا بن گیا، اگر وہ سجدہ کرتا ہے تو مواد بہتا ہے، حالانکہ وہ شخص رکوع، قیام اور قراءت پر قادر ہے، تو اُسے حکم یہ ہے کہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھ لے، ہاں اگر وہ کھڑا ہو کر ہی حقیقی رکوع کرے اور پھر بیٹھ جائے اور اشارے سے سجدہ کر لے، تو یہ بھی کافی ہے، البتہ پہلی صورت (شروع سے بیٹھ کر نماز پڑھنا)افضل ہے، کیونکہ قیام اور رکوع ازخود بطورِ قربت مشروع نہیں ہیں، بلکہ یہ درحقیقت دونوں چیزیں ہی سجدے کا وسیلہ ہیں۔(رد المحتار مع در مختار، جلد 04،باب صلاۃ المریض، صفحہ 534، مطبوعہ دار الثقافۃ و التراث، دمشق)
یونہی اگر کوئی شخص قیام پر قادر ہے، مگر رکوع سجود پر نہیں، تو اُس کے لیے افضل اگرچہ یہی ہے کہ قیام بھی غیر حقیقی کرے، مگر اگر وہ قیام حقیقی کرے اور رکوع سجدہ اشارے سے ، تو یہ بھی درست ہے، چنانچہ ”فتاوٰی عالَم گیری“ میں ہے: كذا لو عجز عن الركوع و السجود و قدر على القيام فالمستحب أن يصلي قاعدا بإيماء و إن صلى قائما بإيماء جاز عندنا۔ ترجمہ: یونہی اگر کوئی رکوع اور سجدے سے عاجز ہے، جبکہ قیام پر قادر ہے، تو مستحب یہ ہے کہ بیٹھ کر اشارے سے نماز پڑھے، لیکن اگر کھڑے ہو کر حقیقی قیام کر لے، تو ہمارے نزدیک یہ بھی جائز ہے۔(الفتاوى الھندیۃ، جلد 01، صفحہ 136، مطبوعہ کوئٹہ)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم