
مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3608
تاریخ اجراء:27شعبان المعظم 1446ھ/26فروری2025ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
میرا سوال یہ ہے کہ حدیث مبارک میں ہے کہ جس نے جمعہ کے دن 80 مرتبہ درود شریف پڑھا، اس کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے اور بھی ایسے بہت فرامین ہیں ۔ تو کیا قضا نماز بھی معاف ہو جائے گی اور کیا اس کی قضا نہیں پڑھنا پڑے گی؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حدیث مبارک میں تما م گناہ معاف ہونے کے الفاظ نہیں بلکہ ”اسی سال کے گناہ بخش دئے جائیں گے“ کے الفاظ ہیں۔ مگر یہ بات واضح رہے کہ عمومااس طرح کی بشارتوں میں گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہوتےہیں،جبکہ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ کا حکم ہوتا ہے ۔ اور معافی توبہ سے ہویاکسی اورعمل کے ذریعے،نمازوغیرہ کے معاملے میں اس میں تاخیرکرنےوغیرہ کے گناہ کی معافی مرادہوتی ہے لیکن نمازوغیرہ کی ادائیگی توپھربھی ضروری ہی رہتی ہے ۔
کنز العمال میں حدیث پاک ہے" الصلاة علي نور على الصراط فمن صلى علي يوم الجمعة ثمانين مرة غفرت له ذنوب ثمانين عاما "ترجمہ:مجھ پر درود بھیجنا پل صراط پر نور ہوگا، تو جو مجھ پر روز ِ جمعہ اسی(80) بار درود پڑھے تو اس کے اسی (80) سا ل کے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔(کنز العمال،رقم الحدیث 2149،ج 1،ص 490،مؤسسة الرسالة)
حديث مبارك میں ہے :” قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قال: سبحان الله وبحمده في يوم مائة مرة حطت خطاياه وإن كانت مثل زبد البحر “ترجمہ: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو دن میں سو بار سبحان اﷲ وبحمدہ پڑھے تو اس کی خطائیں بخش دی جائیں گی اگرچہ سمندر کی جھاگ برابر ہوں۔(مشکاۃ المصابیح ، جلد02،صفحہ 711، المكتب الإسلامي ، بيروت)
مرآۃ المناجیح میں اس کے تحت ہے" بے حد وبے شمار خطاؤں سے مراد گناہ صغیرہ ہیں جو حقوق اﷲ کے متعلق ہوں،حقوق شرعیہ اور حقوق العباد اس سے علیحدہ ہیں لہذا فوت شدہ نماز،روزے،بندوں کے قرض اس وظیفہ سے معاف نہ ہوجائیں گے وہ تو ادا ہی کرنے ہوں گے، لہذا حدیث پرکوئی اعتراض نہیں۔"(مرآۃ المناجیح ، جلد 03،صفحہ 361، قادری پبلشرز،لاہور)
اسی میں ہے " نماز پنجگانہ روزانہ کے صغیرہ گناہ کی معافی کا ذریعہ ہے،اگر کوئی ان نمازوں کے ذریعہ گناہ نہ بخشواسکاتو نمازجمعہ ہفتہ بھر کے گناہ صغیرہ کا کفارہ ہے،اگر کوئی جمعہ کے ذریعہ بھی گناہ نہ بخشواسکا کہ اسے اچھی طرح ادا نہ کیا تورمضان سال بھر کے گناہوں کا کفارہ ہے،لہذا اس حدیث پریہ اعتراض نہیں کہ جب روزانہ کے گناہ پنجگانہ نمازوں سے معاف ہوگئے تو جمعہ اور رمضان سے کون سے گناہ معاف ہوں گے۔خیال رہے کہ گناہ کبیرہ جیسےکفروشرک، زنا، چوری وغیرہ یوں ہی حقوق العباد بغیر توبہ وادائے حقوق معاف نہیں ہوتے۔"(مرآۃ المناجیح ، جلد 01،صفحہ 349، قادری پبلشرز،لاہور)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے " قد سبق في كلام النووي أن المكفرات إن صادفت السيئات تمحوها إذا كانت صغائر، وتخففها إذا كانت كبائر، وإلا تكون موجبة لرفع الدرجات في الجنات"ترجمہ:علامہ نووی علیہ الرحمۃ کے کلام میں گزر چکا کہ کفارہ بننے والے اعمال اگر گناہوں کے مقابل آجائیں تو ان گناہوں کو مٹادیتے ہیں جبکہ صغیرہ گناہ ہوں اور اگر کبیرہ گناہ ہوں تو ان میں تخفیف کردیتے ہیں وگرنہ جنت میں درجات کی بلندی کا موجب بنتے ہیں۔(مرقاۃ شرح مشکاۃ،جلد4،صفحہ1361،دار الفکر،بیروت)
علامہ سید امین ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ منحۃ الخالق حاشیہ بحر الرائق میں تحریر فرماتے ہیں :"أن التوبۃ تکفر الذنوب بالاتفاق ولا یلزم من ذلک سقوط الواجبات المترتبۃ علی تلک الذنوب علی أن التوبۃ من ذنب یترتب علیہ واجب لا تتم إلا بفعل ذلک الواجب فمن غصب شیأا ثم تاب لا تتم توبتہ إلا بضمان ما غصب فما بالک بالحج الذی فیہ النزاع، والمراد من قولنا لا تتم توبتہ إلا بفعل الواجب أنہ لا یخرج عن عہدۃ الغصب فی الآخرۃ إلا بذلک وإلا فلو غصب وتاب عن فعل الغصب المذکور وحبس الشیء المغصوب عندہ ومنع صاحبہ عنہ، وقد عزم علی ردہ إلی صاحبہ تصح توبتہ وإن بقیت ذمتہ مشغولۃ بہ إلی أن یردہ إلی صاحبہ فحینئذ تتم توبتہ بمعنی أنہ یخرج عن عہدتہ من کل جہۃ، وکذا یقال فی مطل الدین وتأخیر الصلاۃ " ترجمہ:کیا تم نہیں دیکھتے کہ توبہ گناہوں کے لیے بالاتفاق کفارہ ہے لیکن جو واجبات ان گناہوں پر مرتب ہوتے ہیںان کا ساقط ہونا اس سے لازم نہیں آتااس طور پر کہ ایسا گناہ جس پر واجب مرتب ہوتا ہے اس سے توبہ فقط اس واجب کی ادائیگی سے ہی ہوتی ہے ۔پس جس نے کوئی چیز غصب کی تو اس کی توبہ اس وقت تک مکمل نہ ہو گی جب تک مغصوبہ چیز کا تاوان نہ ادا کردے تو تمہار ا اس حج کے بارے میں کیا خیال ہے جو( کبائر کی معافی کے لیے )خود مختلف فیہ ہے۔ہمار ا یہ کہنا کہ ''اس کی توبہ واجب کی ادائیگی ہی سے تام ہو گی''سے مراد یہ ہے کہ غاصب آخرت میں اس غصب کے گناہ سے فقط اسی واجب کی ادائیگی سے ہی بری ہو گا وگر نہ اگر اس نے غصب کیا اور اس غصب سے،مغصوبہ چیز کو اپنے پاس رکھنے اور مالک کو نہ دینے سے توبہ کی حالانکہ و ہ مالک کو چیز لوٹانے کا عزم کر چکا تھا تو اس کی توبہ صحیح ہے اگرچہ مالک کو وہ چیز لوٹانے کا ذمہ اس پر برقرار رہے گا پس اس وقت توبہ تام ہونے کا یہ مطلب ہے کہ وہ ہر طرح کے مواخذے سے بری ہو جائے گا ۔اسی طرح نماز میں وقت سے تاخیر اور دَین میں ٹال مٹول کے بارے میں کہا جائے گا ۔ (منحۃالخالق حاشیہ بحر الرائق، ج2، ص364،دار الکتب الاسلامی)
امام اہلسنت، مجدد دین و ملت، اعلی حضرت، شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شے بنائی کہ ہر گناہ کے ازالہ کو کافی و وافی ہے کوئی گناہ ایسا نہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر،سچی توبہ کے معنی یہ ہیں کہ گناہ پر اسلئے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نا فر مانی تھی ناد م و پریشان ہوکر فورا چھوڑدےاورآئندہ کبھی اس گناہ کےپاس نہ جانے کاسچےدل سےپوراعزم کرےجوچارہ کاراس کی تلافی کا اپنےہاتھ میں ہو بجالائے مثلا نماز روزے کے ترک یا غصب، سرقہ، رشوت، ربا سے توبہ کی توصرف آئندہ کے لئے ان جرائم کا چھورڈینا کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جو نماز روزے ناغہ کئے ان کی قضا کرے جو مال جس جس سے چینا ، چرایا، رشوت، سود میں لیا انھیں اور وہ نہ رہے ہوں تو ان کے وارثوں کوواپس کردے یا معاف کرائے، پتا نہ چلے توا تنا مال تصدق کردے اور دل میں نیت رکھے کہ وہ لوگ جب ملے اگرتصدق پرراضی نہ ہوئے اپنے پاس سے انھیں پھیردوں گا۔“(فتاوی رضویہ ،ج21 ،ص121-122، رضافاؤنڈیشن ،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم