
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:FAM-559
تاریخ اجراء:07ربیع الثانی1446ھ/11اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ تہجد کی نماز کا کیا حکم ہے؟ کیا تہجد کی نماز سنت مؤکدہ ہے یا نہیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
تہجد کی نماز سنتِ مؤکدہ ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ سنتِ مستحبہ یعنی ایک نفل نماز ہے جو کہ تمام مستحب نوافل سے زیادہ فضیلت و اہمیت والی ہے۔ غنیۃ المتملی میں ہے: ’’من النوافل المستحبۃ قیام اللیل‘‘ ترجمہ: نوافل مستحبہ میں سے رات کی نماز (یعنی تہجد بھی) ہے۔(غنیۃ المتملی، فصل فی النوافل، قیام اللیل، صفحہ432، مطبوعہ کوئٹہ)
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’تہجد سنت مستحبہ ہے، تمام مستحب نمازوں سے اعظم واہم، قرآن واحادیث حضورپرنورسیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس کی ترغیب سے مالامال، عامہ کتب مذہب میں اسے مندوبات ومستحبات سے گِنا اور سنت مؤکدہ سے جُدا ذکرکیا، تو اس کا تارک اگرچہ فضل کبیر وخیرکثیر سے محروم ہے گنہگارنہیں، بحرالرائق و عالمگیری و درمختار و فتح اﷲ المعین السید ابو السعود الازہری میں ہے: ’’المندوبات صلٰوۃ اللیل‘‘ (رات کی نماز مندوبات میں سے ہے۔) مراقی الفلاح میں ہے: ’’سن تحیۃ المسجد و ندب صلٰوۃ اللیل‘‘(تحیۃ المسجد سنت اور رات کی نمازمستحب ہے۔)۔۔۔ غرض ہمارے کتب مذہب کے احکام منصوصہ مذکورہ علی جہۃ النفل میں اس کا استحباب ہی مصرح ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 401،400، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم