کیا یونیورسٹی وطنِ اصلی بن سکتا ہے؟

چار سال یونیورسٹی میں رہائش رکھنی ہو تو کیا وہ وطن اصلی بن جائے گی؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

سوال یہ پوچھنا تھا کہ میں یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہوں اور میرا گھر یونیورسٹی سے تقریبا 120 کلو میٹر دورہے تو میں اگر 15 دن سے زیادہ یونیورسٹی میں رہوں گا، تو ادھر پوری نماز ادا کروں گا اور اگر 15 دن سے کم رہوں گا تو قصر۔ اچھا سوال یہ پوچھنا تھا کہ اب چار سال ادھر یونیورسٹی میں ہی رہوں گا، چار سال کی ڈگری ہے تو اب یہ میرا آبائی گھر تو نہیں بن جائے گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر میں اپنی یونیورسٹی سے آگے کسی جگہ سفر کروں تو سفر شرعی کا اعتبار یونیورسٹی سے کیا جائے گا یا اپنے آبائی گھر سے اور نماز کے کیا احکام ہیں ؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

بیان کردہ سوالات کےحوالے سے عرض یہ ہے کہ صورت مسئولہ میں صرف چارسال کے لیے یونیورسٹی میں رہنے کی صورت میں یونیورسٹی آپ کا وطن اصلی نہیں بنے گی، کیونکہ دوسری جگہ وطن اصلی تب بنتا ہے، جب مستقل وہیں رہنے کی نیت ہو۔ لہذاجب شرعی مسافت کی مدت طے کر کے یونیورسٹی میں پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، تو قصر کی جائے گی، اور جب پندرہ دن رہنے کی نیت ہو گی ،تو پوری نماز پڑھنی ہوگی، نیز جس صورت میں آپ کے لیےیونیورسٹی وطن اقامت ہوگی تواس صورت میں وہاں سے اگلے سفر میں یونیورسٹی کا اعتبار کیا جائے گا، آپ کے آبائی گاؤں کا اعتبار نہیں ہو گا، لہذا اگراگلا سفریونیورسٹی سے کم ازکم 92 کلو میٹر کا ہوگا تو نماز قصر ہو گی، ورنہ پوری پڑھی جائے گی۔

تنویر الابصارو درمختار میں ہے:

(الوطن الأصلي يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، و بما فوقه لا بما دونه۔ملخصاً

 یعنی وطن اصلی اپنے مثل وطن کے ذریعے باطل ہوجائے گا،جبکہ پہلی جگہ میں اس کے اہل و عیال باقی نہ رہیں، پس اگر پہلی جگہ اہل و عیال باقی ہوں، تو وطن باطل نہیں ہوگا، بلکہ دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا۔ اپنی مثل کے علاوہ کسی اور سے وطنِ اصلی باطل نہیں ہوتا اور وطن اقامت اپنی مثل سے، وطن اصلی سے اور سفر کرنے سے باطل ہو جاتا ہے اور اصول ان میں یہ ہے کہ چیز اپنی مثل سےاور اپنے سے اوپر کی چیزسے باطل ہوتی ہے اپنے سے کم شے سے باطل نہیں ہوتی۔

اس کے تحت رد المحتار میں ہے:

(قوله يبطل بمثله) سواء كان بينهما مسيرة سفر أولاً، ولا خلاف في ذلك كما في المحيط ۔قهستاني، و قيد بقوله بمثله لأنه لو انتقل منه قاصدا غيره ثم بدا له أن يتوطن في مكان آخر فمر بالأول أتم لأنه لم يتوطن غيره نهر

 یعنی وطن اصلی اپنے مثل وطن کے ذریعے باطل ہوجائے گا، خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہواور اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے، جیسا کہ محیط میں ہے قہستانی۔ماتن نے ’’بمثلہ‘‘  کی قید لگائی، کیونکہ اگر کوئی دوسری جگہ جانے کے ارادے سے منتقل ہوا، پھر اس کے لیے ظاہر ہوا کہ وہ کسی اور جگہ وطن بنائے، پھروہ پہلی جگہ سے گزرا تو پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ اس نے ابھی اس کے علاوہ جگہ کو وطن نہیں بنایا۔ نہر الفائق۔ (تنویر الابصار و در مختار مع رد المحتار، جلد 2، صفحہ 131، 132،دار الفکر،بیروت)

سیدی اعلی حضرت ،امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں: ’’جبکہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے نہ وہاں اس نے شادی کی نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کرلیا کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا، بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے، تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجت اقامت بعض یا کل اہل وعیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام ایک وجہ خاص سے ہے نہ مستقل ومستقر ، تو جب وہاں سفر سے آئے گا جب تک ۱۵ دن کی نیت نہ کرے گا قصر ہی پڑھے گا کہ وطن اقامت سفر کرنے سے باطل ہوجاتا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 8، صفحہ 271، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4383

تاریخ اجراء: 05 جمادی الاولٰی 1447ھ / 28 اکتوبر 2025ء