مسجد و مدرسہ میں استعمال کیلئے چیز دے کر واپس لینا

چیزیں استعمال کے لئے مدرسہ و مسجد میں رکھنا اور ضرورت کے وقت واپس لینا

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا کوئی شخص چیز اپنی ملکیت میں رکھتے ہوئے کسی مدرسہ میں استعمال کے لیے دے سکتا ہے کہ وہ جب چاہے اس چیز کو واپس لے لے جیسے کتابیں مدرسہ میں رکھ دیں کہ طلبا پڑھیں اور جب مالک کو ضرورت ہو وہ واپس لے لے، اسی طرح کارپیٹ وغیرہ مدرسہ میں استعمال کے لئے دئیے کہ جب ضرورت ہوگی واپس بھی لے لے گا۔ نیز اگر مدرسہ کے لئے کوئی چیز وقف کرنے کے بعد مالک اپنی نیت تبدیل کر لے کہ یہ مال مدرسہ کے لئے بھی استعمال کیا جائے اور اس سے ہٹ کر دینی کاموں کے لئے بھی، تو کیا ایسا کرنا، جائز ہے؟

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَايَةَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مدرسہ میں اس نیت سے کتابیں رکھنا کہ طلبا استفادہ کرتے رہیں اور جب مجھے ضرورت ہوگی تو واپس لے لوں گا یعنی یہ کتابیں وقف کرنے کی نیت سے مدرسہ میں نہ رکھے، تو کتابیں مدرسہ میں طلبا کے استفادہ کی خاطر رکھنے اور بعد میں واپس لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں یہی حکم کارپیٹ وغیرہ دیگر چیزوں کا ہے۔ ہاں! کوئی چیزوقف کردینے کی صورت میں حسبِ شرائط واقف ہی استعمال ہوگی اور جب تک قابلِ استعمال ہیں واقف ان چیزوں کو واپس نہیں لے سکتا۔ نیز وقف کی گئی چیز جس مصرف پر وقف کرلی صرف اسی میں استعمال ہوسکتے ہیں، بعد میں اس میں تبدیلی بھی نہیں کرسکتے اگرچہ دوسرا مقصد جس میں یہ استعمال ہوگا وہ بھی کارِ خیر ہو۔

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: ”وقف کی تبدیل جائز نہیں، جو چیز جس مقصد کے لیے وقف ہے اسے بدل کر دوسرے مقصد کے لئے کردینا روانہیں، جس طرح مسجد یا مدرسہ کو قبرستان نہیں کرسکتے، یونہی قبرستان کو مسجد یا مدرسہ یا کتب خانہ کردینا حلال نہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ، جلد 9، صفحہ 457، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی

فتویٰ نمبر: Web-2239

تاریخ اجراء: 12 شوال المکرم 1446ھ / 11 اپریل 2025ء