
مجیب:مولانا محمد سعید عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3418
تاریخ اجراء: 20جمادی الاخریٰ 1446ھ/23دسمبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان ِ شرع متین اس مسئلے میں کہ مسجد کی دوسری منزل پر امام سے آگے یا امام کی سیدھ یعنی برابر صف بنانا کیسا؟صف اوپر ہے اور اس کی سیدھ میں نیچے امام ہے، شرعی رہنمائی فرما دیں؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
پوچھی گئی صورت میں دوسری منزل پر نمازپڑھنے والوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ امام سےآگے کھڑے نہ ہوں(یعنی ،قیام ،رکوع، سجودکسی حالت میں ان کاٹخنہ امام کے ٹخنےسے آگے نہ ہو) اگرامام سے آگے ہوئے تو ان کی نماز نہ ہوگی،اوراگرامام کے برابر،سیدھ میں اس طرح کھڑے ہوں کہ ان کاٹخنہ ، قیام،رکوع،سجود کسی حالت میں امام کے ٹخنے سے آگےنہ ہو تواس صورت میں بھی نماز ہوجائے گی۔
شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 483ھ)المبسوط (ج 1،ص 210)میں اور ملک العلماء ابو بکر بن مسعود کاسانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 587ھ)بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:” ولو وقف على سطح المسجد واقتدى بالإمام: فإن كان وقوفه خلف الإمام أو بحذائه أجزأه، لما روي عن أبي هريرة - رضي الله عنه - أنه وقف على سطح واقتدى بالإمام وهو في جوفه؛ ولأن سطح المسجد تبع للمسجد، وحكم التبع حكم الأصل فكأنه في جوف المسجد،۔۔۔وإن كان وقوفه متقدما على الإمام لا يجزئه لانعدام معنى التبعية، كما لو كان في جوف المسجد“ترجمہ:اگر کسی نے مسجد کے چھت پر کھڑے ہوکر امام کی اقتداء کی،تو اگر امام سے پیچھے یا امام کی محاذات میں کھڑا ہوا تو کفایت کر جائے گا ،کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتداء کی جبکہ امام ،مسجد کی نچلی منزل میں کھڑے تھے،اور اس لئے بھی کہ مسجد کی چھت، مسجد کے تابع ہوتی ہے اور تابع کا حکم ،اصل والا ہوتا ہے تو گویا کہ اس نے مسجد کی نچلی صف میں ہی امام کی اقتداء کی ،اور اگر وہ مقتدی امام سے آگے کھڑا ہوا تو کفایت نہیں کرے گا کیونکہ اس صورت میں امام کے تابع ہونے والا معنی نہیں پایا گیا ،جیسا کہ اگر نچلی صف میں امام کے آگے کھڑا ہوتا تو کفایت نہ کرتا۔(بدائع الصنائع،کتاب الصلاۃ،فصل فی واجبات الصلاۃ،ج 1،ص 146،دار الکتب العلمیہ،بیروت)
امام قرق امیر الحمیدی رومی حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 860ھ)فرماتے ہیں:”ولو تقدم قدم الماموم علی قدم الامام قلیلا ،قیل لا یجوز کیف ما کان وقیل یجوز ما بقیت المحاذاۃ فی شئی من القدم ، والاصح ان الاعتبار باالساق والکعب ،لان القوام بہ“ترجمہ:اگر مقتدی کا قدم امام کے قدم سے تھوڑا آگے بڑھ گیا تو ایک قول یہ ہے کہ جتنا بھی آگے بڑھے نماز نہ ہوگی اور ایک قول یہ ہے کہ جب تک امام کے قدم سے کچھ نہ کچھ محاذات باقی ہے نماز ہو جائے گی اور اصح یہ ہے کہ اعتبار پنڈلی اور ٹخنوں کا ہے کیونکہ پاؤں کا قیام انہی سے ہوتا ہے۔(جامع الفتاوی،کتاب الصلاۃ،فصل فی الامامۃ،ص 130،مطبوعہ بغداد)
سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” جب صرف ایک مقتدی ہو تو سنت یہی ہے کہ وہ امام کے برابر دا ہنی طرف کھڑا ہو مگر اس کا لحاظ فرض ہے کہ قیام، قعود، رکوع، سجود کسی حالت میں اس کے پاؤں کاگِٹّا امام کے گِٹّے سے آگے نہ بڑھے، اسی احتیاط کے لئے امام محمد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ اپنا پنجہ امام کی ایڑی کے برابررکھے۔"(فتاوی رضویہ،ج 7،ص 201،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم