قعدہ اولیٰ میں تشہد ادھورا پڑھنے والے مقتدی کی نماز ہوگی؟

مقتدی نے قعدہ اولی میں تشہدپورا نہ پڑھا تو اس کی نماز کا حکم

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر امام قعدہ اولیٰ میں تشہد پڑھ کر کھڑا ہوگیا لیکن مقتدی کی تشہدمکمل نہیں ہوئی تو کیا مقتدی بھی اس کے ساتھ کھڑا ہو جائے یا تشہد مکمل کرے ؟ نیز اگر کوئی مقتدی تشہد آدھا چھوڑ کر امام کے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا تو ایسے مقتدی کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

مقتدی نے اگر تشہد ابھی تک پوری نہیں پڑھی کہ امام کھڑا ہوگیا تو اس صورت میں مقتدی پر لازم ہے کہ وہ تشہدپوری پڑھ کر پھر کھڑا ہو، اگر تشہد پوری پڑھے بغیر مقتدی کھڑا ہوگیا اور آگے اسی طرح نماز جاری رکھی تو ایسے مقتدی کی نماز واجب الاعادہ ہوگی یعنی اس شخص کو وہ نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی، اس لئے کہ نماز کے ہر قعدہ میں پورا تشہد پڑھنا، ہر نمازی پر واجب ہے (خواہ وہ مقتدی ہویانہیں) پس اگر کسی نماز نے جان بوجھ کر تشہدکوپورانہ پڑھا، تو اسے وہ نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔

نماز کے ہر قعدہ میں پورا تشہد پڑھنا ضروری ہے، چنانچہ واجبات نماز بیان کرتے ہوئے در مختار میں علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

(و التشهدان) و يسجد للسهو بترك بعضه ككله

ترجمہ: اور دونوں(قعدوں میں) تشہد پڑھنا (واجب ہے) لہذا اگر بھولے سے بعض حصہ چھوڑ دیا تو سجدہ سہو لازم ہے جس طرح پورا تشہد چھوڑنے پر سجدہ سہو لازم ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 64، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

بہار شریعت میں صدر الشریعہ علیہ الرحمہ واجبات نماز بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ”دونوں قعدوں میں پورا تشہد پڑھنا، یوں ہی جتنے قعدے کرنے پڑیں سب میں پورا تشہد واجب ہے ایک لفظ بھی اگر چھوڑے گا تو ترک واجب ہوگا۔ (بہار شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ 518، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

مقتدی کو بھی تشہد مکمل کرنا ہوگا، چنانچہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ”اگر مقتدی ابھی التحیات پوری نہ کرنے پایا تھا کہ امام کھڑا ہوگیا یا سلام پھیر دیا تو مقتدی التحیات پوری کرلے یا اتنی ہی پڑھ کر چھوڑ دے؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب فرماتے ہیں: ”ہر صورت میں پوری کرلے اگرچہ اس میں کتنی ہی دیر ہوجائے لان التشھد واجب (کیونکہ تشہد واجب ہے)۔ (فتاوی رضویہ، جلد 7، صفحہ 52، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

بہارِ شریعت میں ہے ”امام تشہد پڑھ کر کھڑا ہوگیا اور مقتدی نے ابھی پورا نہیں پڑھا تو مقتدی کو واجب ہے کہ پورا کر کے کھڑا ہو۔ (بہارِ شریعت، جلد 1، حصہ 3، صفحہ519، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

نماز کا کوئی واجب چھوڑنے کے متعلق در مختار میں ہے

(و لهاواجبات) لاتفسد بتركها و تعاد وجوبا في العمد و السھو ان لم یسجد

ترجمہ: نماز کے کچھ واجبات ہیں نماز ان کے ترک سے فاسد نہیں ہوتی، لیکن قصداً ترک کرنے سے یا سہواً (بھولے ) سے ترک کرنے کے بعد سجدہ سہو نہ کرنے کی صورت میں اس نماز کا دہرانا واجب ہوتا ہے۔ (الدر المختار، صفحہ 64، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)

فتاوی امجدیہ میں ہے

چوں از مقتدی سہواً ترک واجب واقع شد، نہ بہ و سجدہ سہو واجب است، نہ اعادہ نماز، اعادہ در آں صورت واجب است کہ عمداً ترک واجب کند، یا او از جانب شرع بسجدہ سہو مامور بود و نکند

 ترجمہ: مقتدی سے سہواً واجب ترک ہو تو اس صورت میں سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا اور نہ ہی اعادہ نماز کا حکم ہے، نماز کا اعادہ اس صورت میں واجب ہوتا ہے جب عمداً واجب ترک کیا ہو یا سجدہ سہو واجب ہو اور اس کو ادا نہ کیا ہو۔“ (فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 274، مکتبہ رضویہ، کراچی)

اگر مقتدی نے عمداً کوئی واجب ترک کیا تو اس کی نماز واجب الاعادہ ہوگی، چنانچہ وقار الفتاوی میں مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ”امام کے پیچھے اگر مقتدی سے سہواً یا قصداً کوئی واجب چھوٹ گیا مثلاً۔۔۔ تشہد نہیں پڑھا تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟“ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں ”کسی واجب کو قصداً (جان بوجھ کر) امام کے پیچھے چھوڑنے سے نماز دوبارہ پڑھنا ہوگی۔ اور اگر امام کے پیچھے سہواً (بھول سے) کوئی واجب چھوٹ گیا تو پھر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا۔ (وقار الفتاوی، جلد 2، صفحہ 210، بزم وقار الدین، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: مولانا محمد حسان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-4300

تاریخ اجراء: 13 ربیع الآخر 1447ھ / 07 اکتوبر 2025ء