کیا اکیلا وتر پڑھنے والا جہری قراءت کر سکتا ہے؟

وتر کی نماز اکیلا پڑھنے والا شخص بلند آواز قراءت کر سکتا ہے؟

دار الافتاء اھلسنت (دعوت اسلامی)

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا اکیلے نماز پڑھنے والے کو وتر کی تینوں رکعتوں میں سری قراءت کرنی ہوگی یا بلند آواز سے بھی قراءت کر سکتا ہے؟مجھے کسی نے ایک اردو فتاویٰ کے حوالے سے بیان کیا کہ منفرد وتر میں جہری قراءت نہیں کرسکتا۔

جواب

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

منفرد وتر کی نماز وقت میں پڑھ رہا ہو، تو اسے سری یا جہری دونوں طرح قراءت کا اختیار ہے اور افضل یہ ہے کہ جہری قراءت کرے۔

اس بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ جس نماز کی جماعت میں امام پرسری قراءت واجب ہے، اس نماز کو تنہا پڑھنے میں بھی سری قراءت واجب ہے، لہٰذامغرب کی تیسری اور عشا کی تیسری چوتھی یوہیں ظہر و عصر کی تمام رکعتوں میں منفرد سری قراءت کرے گا۔ اورجس نماز میں امام پرجہری قراءت کرنا واجب ہے، جیسے فجر ومغرب وعشا کی پہلی دورکعتوں میں، تراویح کی تمام رکعتوں میں، توان نمازوں میں منفرد کو اختیار ہوتا ہے کہ سری قراءت کرے یا جہری۔ وتر بھی اگر باجماعت پڑھے جائیں جیساکہ ماہِ رمضان میں تو امام پروتر کی تینوں رکعتوں میں جہری قراءت واجب ہوتی ہے، لہٰذا تنہا وتر پڑھنے والا جب وتر وقت میں پڑھے تو اسے وتر کی تینوں رکعتوں میں اختیار ہے کہ قراءت آہستہ آواز سے کرے یا بلند آواز سے، البتہ بلند آواز سے قراءت کرنا افضل ہے۔

واضح رہے کہ منفرد کو جس صورت میں جہری قراءت کرنے کا اختیار ہے، اس صورت میں اگرمنفردبلند آواز سے پڑھے توآواز اتنی بلند نہ ہوجتنی امام کرتا ہےکیونکہ یہاں سننے والا کوئی نہیں ہے، بلکہ جہر کے صرف ادنیٰ درجےپراکتفا کرے اور وہ یہ ہے کہ جو شخص اس کےقریب نہ ہو وہ بھی سن لے جیسے پہلی صف میں موجود افراد۔

نیز یہ مسئلہ بھی ذہن نشین رہے کہ منفرد کووتر سمیت دیگر جہری نمازوں میں جہری قراءت کا اختیار (جس کی تفصیل اوپر گزری) اس وقت ہےکہ جب اس نماز کو اس کے وقت میں پڑھ رہا ہو۔ اگر جہری نماز کی قضاپڑھ رہا ہو، تو منفردکو جہری قراءت کرنے کا اختیار نہیں، بلکہ اس پرسری قراءت کرنا واجب ہے۔

اوپر بیان کردہ ضابطے سے متعلق علامہ عبد الرحمن عمادی حنفی علیہ الرحمۃ(متوفی: 1051 ھ) کی کتاب ہدیۃ ابن العماد کی شرح میں علامہ عبد الغنی نابلسی رحمہُ اللہُ(متوفی: 1143 ھ)فرماتے ہیں:

”اما المنفرد فیخفی فیما یخفی الامام ویتخیّر فیما یجھر، عن ابی حفص: الجھر افضل“

یعنی منفرد ان نمازوں میں سری قراءت کرے گا جن میں امام سری قراءت کرتا ہے اور جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرتا ہے، ان میں منفرد کو سری و جہری قراءت کرنے کا اختیار ہے۔ امام ابو حفص سے مروی ہے کہ( منفرد کو جہری نمازوں میں) جہری قراءت کرنا افضل ہے۔ (نھایۃ المراد فی شرح ھدیۃ ابن العماد، ص 508،  دار البیروتی دمشق)

محقق علی الاطلاق امام ابن ہمام علیہ الرحمۃ(متوفی: 861 ھ)کی مسائلِ نماز پرکتاب مستطاب زاد الفقیر کے واجباتِ نماز کے تحت صاحبِ تنویر الابصار علامہ شمس الدین تمرتاشی حنفی علیہ الرحمۃ (متوفی: 1004 ھ) فرماتے ہیں:

”و منھا الجھر فی الجھریّۃ ان کان اماماً وھی الفجر و اولی العشاءین و الجمعۃ و العیدین والتراویح والوترولو قضاءً۔۔۔ و قیّد وجوب الجھر بالامام لانّ المنفرد یخیّر فیما یجھر فیہ و الجھر افضل لیکون الاداء علی ھیئۃ الجماعۃ و لھذا کان اداؤہ باذان و اقامۃ افضل و ھذا اذا کان مؤدّیاً“

یعنی نماز کے واجبات میں سے یہ بھی ہے کہ امام جہری نمازوں یعنی مغرب وعشاء کی پہلی دو رکعتوں میں، فجر، جمعہ، عیدین، تراویح اور وتر(کی تمام رکعتوں)میں جہری قراءت کرےاگرچہ ان کی قضا پڑھاتا ہو اور جہر کو امام کے ساتھ مقید کرنا اس لئےہے کہ منفرد کو جہری نمازوں میں جہر وسرّ کا اختیار ہے، البتہ جہر افضل ہے تاکہ نماز کی ادائیگی جماعت کےطریقے پر ہو۔ اسی وجہ سے منفرد کا اذان واقامت کے ساتھ نماز ادا کرنا افضل ہے اور یہ اختیار تب ہے کہ یہ سب نمازیں وقت میں پڑھ رہا ہو۔ (اعانۃ الحقیرشرح زاد الفقیر، ص 338،  دار النوادر دمشق)

منفرد جب جہری نماز ادا پڑھ رہا ہو، تو اس کے لئے ادنیٰ جہر کے ساتھ قراءت کرنا افضل ہے، جیساکہ علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمۃ (متوفی: 1088 ھ) فرماتے ہیں:

”و یخیر المنفرد فی الجھروھو افضل و یکتفی بادناہ“

یعنی منفرد کو جہری نمازوں میں جہری قراءت کرنے کا اختیار ہے اور یہی اس کے حق میں افضل ہے اور منفرد کو ادنیٰ جہرپر اکتفا کرنا چاہیے۔ (الدرّ المختار معہ ردّ المحتار، ج 2، ص 306، مطبوعہ کوئٹہ)

ادنیٰ جہر کی مقداربیان کرتے ہوئےعلامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ (متوفی: 1252 ھ) فرماتے ہیں:

”و ادنى الجهر اسماع غيره ممن ليس بقربه كاهل الصف الاول واعلاه لا حد له“

یعنی جہر کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ جو شخص اس کےقریب نہ ہو وہ بھی سن لے جیسے پہلی صف میں موجود افراداور جہر کے اعلیٰ درجے کی کوئی حد مقرر نہیں۔ (ردّ المحتارعلی الدرّ المختار، ج 2، ص 309، مطبوعہ کوئٹہ)

منفردکوجہری نمازمیں جہری قراءت کا اختیار اس وقت ہے جب وقت میں پڑھتا ہو، اگر قضا پڑھے تو اس میں سری قراءت ہی واجب ہے، جیساکہ علامہ ابراہیم حلبی علیہ الرحمۃ(متوفی: 956 ھ)ملتقی الابحر میں فرماتے ہیں:

”و خیّر المنفرد فی نفل اللیل وفی الفرض الجھری ان کان فی وقتہ

یعنی منفرد کو رات کے نوافل میں اور جہری فرض نماز اگر وقت میں پڑھ رہا ہو تو جہری وسرّی قراءت کا اختیار ہے۔

اس کے تحت علامہ عبد الرحمن کلیبولی المعروف شیخی زادہ/داماد آفندی علیہ الرحمۃ(متوفی: 1078 ھ) فرماتے ہیں:

”قید (بقولہ: ان کان فی وقتہ) لان المنفرد اذا قضی الجھر یخافت و لا یتخیر حتی قال صاحب الھدایۃ: ومن فاتته صلاۃ العشاء فصلاها بعد طلوع الشمس ان ام فيها جهر وان كان وحده خافت ولا يتخير هو الصحيح لان الجهر يختص اما بالجماعة حتما او بالوقت فی حق المنفرد على وجه التخيير ولم يوجد احدهما“

یعنی وقت میں پڑھنے کی قید اس لئے لگائی کیونکہ منفرد جہری نماز کی قضاء پڑھنےمیں سرّی قراءت ہی کرے گا، اسے سری یا جہری کااختیار نہیں ہوگا، یہاں تک کہ صاحبِ ہدایہ نے فرمایا: جس کی نماز عشا جاتی رہی اور اس کی قضا سورج طلوع ہونے کے بعدکررہا ہوتو اگر امام ہو، جہری قراءت کرے اور اگراکیلے پڑھ رہا ہو تو سرّی قراءت ہی کرے، جہری کا اختیار نہیں۔ یہی صحیح قول ہے، کیونکہ جہری قراءت کرنے کی صرف دو ہی صورتیں ہیں: جماعت میں وجوباًاور دوسری صورت یہ کہ وقتی نماز اکیلے پڑھ رہاہو، توجہری قراءت کا اختیاری ہے، جبکہ منفرد کی عشا کی قضا میں یہ دونوں صورتیں نہیں۔ (ملتقی الابحرو شرحہ مجمع الانھر، ج 1، ص 156، مطبوعہ کوئٹہ)

جہری نماز وقت میں پڑھے تو منفرد کو جہری قراءت کا اختیار ہے اورجہری کی قضا پڑھ رہا ہو، تواس میں سری قراءت واجب ہےجیساکہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ(متوفی:1367ھ) ارشاد فرماتے ہیں: ”فجر ومغرب وعشا کی پہلی دو اور جمعہ وعیدین وتراویح اور وتر رمضان کی سب میں امام پر جہر واجب ہے اور مغرب کی تیسری اور عشا کی تیسری اور چوتھی یا ظہر وعصر کی تمام رکعتوں میں آہستہ پڑھنا واجب ہے ۔۔ ۔ جہری نمازوں میں منفرد کو اختیار ہےاور افضل جہر ہے جبکہ ادا پڑھےاور جب قضاء ہے تو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ (بھارِ شریعت، ج 1، حصہ 3، ص 544- 545، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

جہری قراءت کی ادنیٰ و اعلیٰ مقدار سے متعلق آپ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”جہر کے یہ معنیٰ ہیں کہ دوسرے لوگ یعنی وہ کہ صفِ اول میں ہیں، سن سکیں۔ یہ ادنیٰ درجہ ہے اور اعلیٰ کے لئے کوئی حد مقرر نہیں اور آہستہ یہ کہ خود سُن سکے۔“ (بھارِ شریعت، ج 1، حصہ 3، ص 544، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-12519

تاریخ اجراء: 26 ربیع الثانی 1444 ھ/ 22 نومبر 2022 ء