مقیم نے مسافر کی اقتدا کی تو باقی رکعتوں میں قراءت کا حکم؟

مقیم مقتدی نے مسافر امام کی اقتدا کی تو باقی رکعتوں میں قراءت کا حکم؟

مجیب:محمد ساجد عطاری

مصدق:مفتی ابو الحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:MUI-0328

تاریخ اجراء:05 ربیع الآخر 1446 ھ/  9 اکتوبر   2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ایک مقیم شخص  جو   چار رکعت والی نماز میں ایک ‏مسافر کی اقتدا کرتا ہے، مسافر امام کے دو رکعت پر سلام پھیرنے کے بعد جب وہ شخص اپنی دو رکعت مکمل کرنے ‏کے لیے کھڑا ہوگا، تو اس وقت  وہ قراءت کرے گا یا نہیں؟ نیز اگر اس نے جان بوجھ کر قراءت کرلی، تو اس  کی نماز ‏کا کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں مقیم مقتدی کا اپنی بقیہ دو رکعتوں میں قراءت کرنا جائز نہیں بلکہ خاموش رہنا واجب ہے، ؛ کیونکہ چار رکعت والی فرض نماز میں مسافر امام کے پیچھے نماز پڑھنے والا مقیم مقتدی آخری دو رکعتوں میں لاحق ہوتا ہے۔ اور لاحق، حقیقی مقتدی  کی طرح حکم رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے سہو سے سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، لیکن اگر کوئی مقتدی امام کے پیچھے قصداً واجب چھوڑے تو اس کی نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوتی ہے۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں اگر کسی نے جان بوجھ کر خاموش رہنا (جو کہ واجب ہے) ترک کیا اور قراءت کی تو اس کی نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی۔

   مسافر کی اقتدا کرنے والا مقیم لاحق ہوتا ہے جیساکہ علامہ علاءالدین حصکفی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ’’و اللاحق من فاتته الركعات كلها أو بعضها لكن بعد اقتدائه بعذر كغفلة و زحمة و سبق حدث و مقيم ائتم بمسافر۔۔۔ و کذا بلا عذر‘‘ ترجمہ: لاحق وہ شخص ہے جس کی امام کی اقتدا کرنے کے بعد پوری یا  کچھ رکعتیں چھوٹ گئی ہوں، خواہ کسی عذر مثلا غفلت، زحمت، حدث واقع ہو نے یا مقیم کا مسافر امام کی اقتدا کرنے کی وجہ سے، یا بغیر کسی عذر کے۔(ملتقطاً درمختار، صفحہ 81، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ)

   لاحق کا حکم حقیقی مقتدی کی طرح ہوتا ہے جیساکہ حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:  ’’حكمه كمؤتم حقيقة فلا يأتي فيما يقضي بقراءة ولا سهو‘‘ ترجمہ: لاحق کا حکم حقیقی مقتدی کی طرح ہے لہذا نہ وہ قیام میں قراءت کرےگا نہ ہی واجب چھوٹنے پر سجدۂ سہو۔(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، صفحہ 309، مطبوعہ دار  الکتب العلمیہ بیروت)

   مقتدی کا قیام میں خاموش رہنا واجب ہے جیساکہ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمۃ واجبات نماز شمار کراتے ہوئے فرماتے ہیں: ”امام جب قراءت  کرے بلند آواز سے ہو خواہ آہستہ، اس وقت مقتدی کا چپ رہنا۔“(بھار شریعت، جلد 1، صفحہ 519، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

   مقتدی نے قصدا واجب ترک کیا تو اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے جیساکہ رد المحتار میں ہے:” (و انصات المقتدی ) فلو قرأ خلف إمامه كره تحريما ولا تفسد في الأصح ۔۔۔و لا يلزمه سجود سهو لو قرأ سهوا لأنه لا سهو على المقتدي، و هل يلزم المتعمد الإعادة جزم ح وتبعه ط بوجوبها،‘‘ ترجمہ: مقتدی کا خاموش رہنا واجب ہے، تو اگر کسی نے امام کے پیچھے قراءت کی تو یہ مکروہ تحریمی ہے، لیکن اصح قول کے مطابق اس کی وجہ سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اور اگر غلطی سے قراءت کی تو سجدہ سہو بھی واجب نہیں ہوگا؛ کیونکہ مقتدی پر سہو نہیں ہوتا، لیکن کیا جس (مقتدی)نے قصداً واجب ترک کیا، اس پر نماز کا اعادہ لازم ہے، علامہ ابراہیم حلبی نے  اس کے وجوب پر جزم فرمایا ہےاور علامہ  طحطاوی نے اس کے وجوب میں علامہ  ابراہیم  کی اتباع کی ہے۔(ملتقطاً رد المحتار، جلد 1، صفحہ 470، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم