مقتدی امام کے پیچھے کچھ نہ پڑھے تو نماز کا حکم

مقتدی امام کے پیچھے کچھ بھی نہ  پڑھے  تو نمازکاحکم

مجیب: مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3734

تاریخ اجراء: 18 شوال المکرم 1446 ھ/17 اپریل 2025 ء

دار الافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر مقتدی امام کے پیچھے کچھ بھی نہ پڑھے،  تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ

   نمازمیں پڑھنے سے تعلق رکھنے والی صرف ایک چیزفرض ہے اوروہ ہے قراءت، اوراحناف کے نزدیک  مقتدی نے قرءات نہیں  کرنی ہوتی، اوراس کے علاوہ پڑھنے سے تعلق رکھنے والی چیزیں یا تو واجب ہیں یاسنت و مستحب، اورسنت و مستحب ترک کرنے سے نہ نمازفاسد ہوتی ہے اور نہ سجدہ سہولازم ہوتاہے اورنہ نمازواجب الاعادہ ہوتی ہے، ہاں جان بوجھ کربلاعذرسنت موکدہ کاترک کرنااساءت ہے، جبکہ جن کا پڑھنا واجب ہے مثلا قعدے میں تشہد کا پڑھنا، اسی طرح جب وتر جماعت سے اداکرے تو دعائے قنوت پڑھنا وغیرہ ان میں سے کسی  کو قصدا چھوڑنے سے نماز فاسد تو نہیں ہوگی لیکن ناقص اور واجب الاعادہ ہوگی  اور چھوڑنے والا گنہگار بھی ہوگا۔

   در مختار میں ہے

   "ترک السنۃ لا یوجب فسادا و لا سھوا بل إساءة لو عامدا غير مستخف."

   ترجمہ: سنت کا ترک نہ نماز کو فاسد کرتا ہے اور نہ ہی سجدہ سہو کو لازم کرتا ہے بلکہ اساءت کولازم کرتاہے اگر جان بوجھ کرہولیکن استخفاف کی نیت سے نہ ہو۔ (الدر المختار مع رد المحتار، واجبات الصلاۃ، جلد 1، صفحہ 473 ، 474، دار الفکر، بیروت)

   رد المحتار میں ہے

   "قراءة القنوت للمقتدي واجبة"

   ترجمہ:مقتدی کے لئے دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، ج 2، ص 10، دار الفکر، بیروت)

   در مختار میں ہے

   ”و بقي من الواجبات۔۔۔ متابعة الإمام“

   ترجمہ: کچھ واجبات باقی ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے: امام کی متابعت کرنا۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے

   ”(قوله و متابعة الإمام) قال في شرح المنية: لا خلاف في لزوم المتابعة في الأركان الفعلية إذ هي موضوع الاقتداء. و اختلف في المتابعة في الركن القولي و هو القراءة؛ فعندنا لا يتابع فيها بل يستمع و ينصت و فيما عدا القراءة من الأذكار يتابعه. و الحاصل أن متابعة الإمام في الفرائض و الواجبات من غير تأخير واجبة، فإن عارضها واجب لا ينبغي أن يفوته بل يأتي به ثم يتابع، كما لو قام الإمام قبل أن يتم المقتدي التشهد فإنه يتمه ثم يقوم لأن الإتيان به لا يفوت المتابعة بالكلية، و إنما يؤخرها، و المتابعة مع قطعه تفوته بالكلية، فكان تأخير أحد الواجبين مع الإتيان بهما أولى من ترك أحدهما بالكلية“

   ترجمہ: (مصنف کا قول: امام کی متابعت) شرح منیہ میں فرمایا:اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ارکان فعلیہ میں امام کی متابعت لازم ہے کیونکہ یہی اقتداء کی جگہیں ہیں اور رکن قولی یعنی قراءت میں متابعت میں اختلاف ہے، ہمارے نزدیک اس میں متابعت نہیں کرے گا بلکہ خاموش رہ کر سنے گا اور قراءت کے علاوہ اذکار میں متابعت کرے گا، حاصل یہ ہے کہ فرائض و واجبات میں بغیر کسی تاخیر کے امام کی متابعت واجب ہے، اگر امام کی متابعت کرنے میں کسی واجب کا تعارض پڑے تو (مقتدی) اس واجب کو نہ چھوڑے بلکہ اسے ادا کرے پھر امام کی متابعت کرے، جیسے اگر مقتدی کے تشہد مکمل پڑھنے سے پہلے امام کھڑا ہوجائے تو مقتدی تشہد مکمل کرے پھر کھڑا ہو کیونکہ تشہد مکمل کرنے میں امام کی متابعت بالکلیہ فوت نہیں ہوگی، بلکہ تشہد مکمل کرنے کی وجہ سے متابعت مؤخر ہوجائے گی لیکن تشہد مکمل کئے بغیر امام کی متابعت کرنے کی صورت میں تشہدبالکلیہ فوت ہوجائے گی، پس دونوں واجبوں کی ادائیگی کرکے ان میں سے کسی ایک واجب کی ادائیگی میں تاخیرکرنا،ان میں سے کسی ایک کو بالکلیہ ترک کرنے سے بہتر ہے۔ (در مختار مع رد المحتار، ج 1، ص 469 ،470، دار الفکر، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے "سوائے قراءت کے تمام واجبات میں امام کی متابعت کرنا۔۔۔ جو چیزیں فرض و واجب ہیں، مقتدی پر واجب ہے کہ امام کے ساتھ انہیں ادا کرے، بشرطیکہ کسی واجب کا تعارض نہ پڑے اور تعارض ہو، تو اسے فوت نہ کرے ، بلکہ اس کو ادا کر کے متابعت کرے، مثلا امام تشہد پڑھ کر کھڑا ہو گیا اور مقتدی نے ابھی پورا نہیں پڑھا، تو مقتدی کو واجب ہے کہ پورا کرکے کھڑا ہو۔" (بہار شریعت، جلد 1، صفحہ 519، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   امام کے پیچھے قصداواجب چھوڑنے کے متعلق رد المحتار میں ہے

   " لو قرأ خلف إمامه كره تحريما و لا تفسد في الأصح۔۔۔ و هل يلزم المتعمد الإعادة جزم ح و تبعه ط بوجوبها“

   ترجمہ: اگر مقتدی نے امام کے پیچھے قراء ت کی تو اس کا یہ عمل مکروہ تحریمی ہے اور اصح قول کے مطابق اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی اور کیا جان بوجھ کر قراءت کرنے والے پر اعادہ لازم ہے؟ تو علامہ حموی نے اعادہ واجب ہونے پر جزم کیا ہے اور علامہ طحطاوی نے ان کی پیروی کی ہے۔ (رد المحتار علی الدر المختار، جلد 1، صفحہ 470، دار الفکر، بیروت)

   اس کے تحت صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ میں تحریرفرماتے ہیں:

   "فعلم ان الاعادۃ علی المقتدی فی صورۃ العمد لا فی صورۃ السھو"

   ترجمہ:پس معلوم ہو گیا کہ مقتدی پر نماز کو لوٹانا جان بوجھ کر واجب ترک کرنے کی صورت میں ہے ،بھول کر ترک ہونے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں۔ (فتاوی امجدیہ، جلد 1، صفحہ 275، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَ اللہُ اَعْلَمُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَ سَلَّم